روس کا افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنا، پاکستان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟

شائع July 7, 2025

یہ غضب ستم ظریفی ہے کہ وہی قوت جسے تباہی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا، اب تلافی کی کوششیں کررہی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ افغان-سوویت جنگ نے عالمی آرڈر کی تشکیل نو کی یا نہیں، اس نے خطے بالخصوص پاکستان اور افغانستان کو ضرور تبدیل کیا۔

سیاست اپنے طریقے سے کام کرتی ہے جیسے یہ سمجھنے کے لیے کہ جب کوئی سابقہ دشمن ایک اسٹریٹجک پارٹنر بن جاتا ہے تو ہمیں اطمینان سے دیکھنا ہوتا ہے کہ ہر فریق کیا چاہتا ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے۔

اس اعتبار سے روس کی جانب سے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا حیران کُن نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن کیا یہ فیصلہ تضادات سے بھرپور نہیں؟ کچھ بھی ہو، طالبان انہیں مجاہدین کی نظریاتی اولاد ہیں جنہیں سوویت یونین کو شکست دینے پر بہت فخر تھا۔ پاکستان نے بھی اس میراث میں اپنا حصہ ڈالا اور تب سے لے کر آج تک وہ سود کے ساتھ اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔

عسکریت پسند گروپس جو آج پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، اسی جہادی پیڑی سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کی طالبان پالیسیز سے لگتا ہے کہ وہ افغانستان کے پیچیدہ ماضی کے آئینے میں پاکستان کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

امریکا جو عملی سفارتکاری میں اپنے عالمی نقطہ نظر کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جب بات اس کی ہو تو شاید ہی وضاحت کی ضرورت پیش آئے۔ واشنگٹن کے لیے فتح یا شکست اخلاقی مطلق نہیں بلکہ حکمت عملی ہے۔ امریکا انخلا سے پہلے ہی طالبان سے بات چیت کررہا تھا اور اپنے آخری فوجی کو افغانستان سے نکالنے سے پہلے خاموشی سے انہیں تسلیم کرنے کی پیش کش کررہا تھا۔

ماسکو کی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے حالیہ برسوں میں بہت تواتر سے سامنے آرہے ہیں۔ تاہم روس کی جانب سے باضابطہ طور پر افغانستان کو تسلیم کرنے کے موقع محل کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب اسرائیل اور ایران تنازع کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراتفری کے درمیان یہ تاثر جارہا تھا کہ روس ایشیا کی جنوب وسطی جغرافیائی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ کھو رہا ہے۔

شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے۔ غزہ میں انسانی المیہ سنگین ہورہا ہے۔ ایران جو روس کا اہم علاقائی اتحادی ہے، محاصرے میں ہے۔ دوسری جانب ماسکو کا ردعمل صرف بیان بازی تک محدود ہے۔

حتیٰ کہ یوکرین میں بھی گمان ہوتا ہے کہ جیسے روس پھنس چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو جغرافیائی سیاست کو کاروباری معاہدے جبکہ جنگ کو کسی برانڈنگ مشق کی طرح دیکھتے ہیں، انہوں نے روس کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ اب جبکہ دنیا افراتفری کا شکار ہے، ایسے میں ان کی نوبیل امن انعام کے حصول کی کھلی خواہش صورت حال میں ایک اور المناک عنصر کا اضافہ کرتی ہے۔ فلسطینیوں کے لیے یہ غداری کی طویل تاریخ کا ایک اور تاریک باب ہے جوکہ مسلسل مصائب کا سامنا کررہے ہیں جبکہ دنیا کا ضمیر سو چکا ہے۔

مرکزی سوال کی جانب واپس آتے ہیں جو یہ ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرکے روس آخر کیا حاصل کرنے کی امید کررہا ہے؟

اگر ایران کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ پیش رفت پریشان کُن ہے۔ طالبان کے ساتھ تہران کی مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ کچھ لوگ یہ قیاس کرتے ہیں کہ اسرائیل کی جارحیت پر طالبان کا خاموش ردعمل یا شاید شام کی نئی قیادت کے ساتھ ان کی صف بندی خاص طور پر عبوری صدر احمد الشارع جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرکے اور اسرائیل کے ساتھ معمول پر آنے کا اشارہ دے کر مبصرین کو دنگ کردیا، ان عوامل نے تہران میں بےچینی پیدا کی ہے۔

طالبان اور شام کے نئے حکمرانوں میں کچھ خصوصیات مماثل ہیں جیسے عملی سفارت کاری، نظریاتی ابہام، اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں خود کو ڈھالنے کی خواہش!

اتحاد میں تبدیلیوں کے سنگین نتائج ہیں۔ حیات التحریر الشام جو القاعدہ اور طالبان کے ساتھ آپریشنل اور نظریاتی وابستگی رکھتی ہے، اس نے شام میں تہران کی اتحادی بشار الاسد حکومت کا خاتمہ کیا۔ ایران اسے لبنان میں حزب اللہ کے لیے ایک خطرے کے طور پر بھی دیکھ سکتا ہے جس سے اسرائیل ایران کے خلاف مزید جارحانہ کارروائیاں کرسکتا ہے۔ ایران کی پریشانیوں میں جیش العدل جیسے ایران مخالف گروہ بھی اضافہ کرتے ہیں جو افغانستان سے کام کرتے ہیں اور پاکستان-ایران سرحد کے قریب سرگرم ہیں۔

شام کی نئی سیاسی اشرافیہ کی طرح طالبان بھی تیزی سے عملی اور اسٹریٹجک ہوتے جارہے ہیں۔ وہ تمام بڑی علاقائی و عالمی قوتوں سے رابطے میں ہیں جن میں چین، روس، امریکا اور بھارت شامل ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ چین داؤ پر لگا ہے۔ افغانستان کے ہمسایے کے طور پر بیجنگ کو اس بات کا باخوبی اندازہ ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام اس کی سرزمین تک پھیل سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چین نے کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد سازی کے چینلز قائم کرنے کی اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں جس کا مقصد تنازعات کو ختم کرنا اور دہشتگردی پر قابو پانا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

افغان سرزمین پاکستان میں خونریز حملوں کے لیے ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں کو کبھی ’گڈ طالبان‘ یا پاکستانی پراکسی کہا جاتا تھا، اب انہوں نے ہی اپنی بندوقوں کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیا ہے۔

میر علی میں حالیہ خودکش حملہ جس کی ذمہ داری حافظ گل بہادر نیٹ ورک سے منسلک ایک گروپ اسود الحرب نے قبول کی ہے، اس تبدیلی کی علامت ہے۔ لشکر اسلام، تحریک انقلاب اسلامی اور اتحاد المجاہدین پاکستان سمیت عسکریت پسند گروپوں کے اتحاد نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ لکی مروت، ٹانک اور کلاچی جیسے شہری علاقوں میں بھی اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حکمت عملی پولیس اور سرکاری اہلکاروں کو منظم طریقے سے نشانہ بنانے پر مرکوز ہے۔

اگرچہ حیات التحریر الشام اور افغان طالبان میں عملی سفارتکاری اور سیاسی اعتبار سے خصوصیات مشترک ہیں لیکن وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حیات التحریر الشام کے برعکس افغان طالبان نے ان عسکریت پسند گروپس سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے جنہوں نے نیٹو سے لڑنے میں ان کی مدد کی تھی۔ اس کے بجائے وہ ان گروپس کو کنٹرول کررہے ہیں اور انہیں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

شاید افغان قیادت پراکسی قوتوں کی پائیداری کو تسلیم کرتی ہے جو دشمنوں پر دباؤ ڈالنے میں مفید ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ ساتھ ہی طالبان معاملے میں براہ راست شمولیت سے بھی انکار کرسکتے ہیں۔

دیگر ریاستوں سے زیادہ پاکستان اور ایران یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پراکسیز پر انحصار کرنا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ گروہ پہلے تو کسی حد تک مقاصد کے حصول میں مدد کرسکتے ہیں لیکن آخر کار وہ خود ہی اپنا ایجنڈا بنا لیتے ہیں اور ان پر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں، یوں ان پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔

کچھ افغان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علاقائی سیاست میں پاکستان کا بڑھتا ہوا جارحانہ انداز اور وسطی ایشیا میں اس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے طالبان کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔ وہ کسی کی بھی پراکسی ہونے کی اپنے تشخص کو ختم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود فوائد کے حصول کے لیے پراکسیز پر انحصار کررہے ہیں۔

طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی روس کی وجوہات کو سمجھنا آسان ہے جوکہ عملی سیاست اور صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کا مرکب ہے۔ روس کا مقصد مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا، اپنی سرحدوں کی حفاظت اور خطے میں مضبوط تعلقات استوار کرنا ہے۔ روس اس اقدام کو اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر دیکھتا ہے جس میں توانائی، ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر جیسے شعبہ جات میں اشتراک شامل ہوسکتا ہے۔

لیکن اہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے۔ جب بات دہشتگردی کو روکنے یا دوسرے ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے پراکسی گروپوں کے استعمال کی ہو تو روس کو طالبان پر کتنا کنٹرول حاصل ہے؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے چین اور پاکستان بھی حل نہیں کرسکے۔ دوسری جانب طالبان قیادت عالمی توقعات کو اپنے ملکی مقاصد کے ساتھ متوازی رکھتے ہوئے محتاط انداز میں کھیل کھیل رہی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد عامر رانا

لکھاری سیکیورٹی تجزیہ نگار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025