• KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.2°C

پاکستان کی زراعت کو پانی کی بندش سے تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے، شیری رحمٰن

شائع July 8, 2025
فائل فوٹو: ڈان
فائل فوٹو: ڈان

چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی سینیٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ پاکستان کی زراعت کو پانی کی بندش سے تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے جب کہ وفاقی بجٹ میں ماحولیاتی ایمرجنسی کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں ماحولیاتی آفات یا اجتماعی اقدام، پاکستان کی آخری وارننگ سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جرمن واچ کے کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025 میں سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار پایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی، ژالہ باری اور اچانک سیلاب معمول بن چکے ہیں، پچھلے 5 سالوں میں 16 فیصد گلیشیئر ماس ختم ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 90 فیصد پانی کی کھپت زراعت میں ہوتی ہے، جو ماحولیاتی جھٹکوں کی زد میں ہے، ملک کی 37 فیصد افرادی قوت زراعت پر انحصار کرتی ہے مگر وہ بحران کا شکار ہے، 45 فیصد پاکستانی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور 21 فیصد غذائی قلت کا شکار ہیں۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ 83 لاکھ کسان خاندانوں کی فصلیں اور مویشی ماحولیاتی جھٹکوں سے تباہ ہو رہے ہیں، ماحولیاتی تباہ کاریاں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت بڑھا رہی ہیں جب کہ فضائی آلودگی پاکستان میں سالانہ 1.28 لاکھ افراد کی جان لے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان کی معیشت کو سالانہ 7 فیصد نقصان پہنچا رہی ہے، ہم ان تباہ کاریوں کو اب قدرتی نہیں، بلکہ انسان ساختہ جرائم کہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دریاؤں میں غیر قانونی مائننگ، جنگلات کی کٹائی اور تعمیرات نے ماحولیاتی تناؤ کو بڑھا دیا ہے، پاکستان کی زراعت کو پانی کی بندش سے تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے جب کہ وفاقی بجٹ میں ماحولیاتی ایمرجنسی کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

پیپلزپارٹی کی سینیٹر کا کہنا تھا کہ وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کا بجٹ 3.5 ارب سے کم کر کے 2.7 ارب کر دیا گیا، ماحولیاتی تحفظ کے لیے فنڈنگ 7.2 ارب سے گھٹا کر 3.1 ارب کر دی گئی۔

مزید کہا کہ بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا، آلودگی کنٹرول کے فنڈز بھی آدھے کر دیے گئے جب کہ سالانہ 27 ہزار ہیکٹر زرخیز زمین ختم ہو رہی ہے، مگر بحالی کی کوئی اسکیم نہیں، ماحولیاتی ایمرجنسی میں الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس لگانا قومی نقصان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات اور این ڈی ایم اے اکیلے ماحولیاتی بحران سے نہیں نمٹ سکتے، نجی اداروں کو ساتھ ملا کر نیشنل کلائمیٹ ایکو سسٹم بنانا ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی بحران کا خمیازہ ان قرضوں سے ادا کر رہا ہے جو اس نے پیدا نہیں کیے، وفاقی آمدنی کا 62 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے، پاکستان کو 2030 تک 348 ارب ڈالر کی ماحولیاتی سرمایہ کاری درکار ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ میڈیا ماحولیاتی آفات کی کوریج میں انسانی غفلت اور مالیاتی بے ضابطگی کو بے نقاب کرے، تعلیم میں ماحولیاتی شعور کو شامل کیے بغیر مستقبل کی حفاظت ممکن نہیں، نوجوانوں کو گرین ٹیک، ایگریکلوجی اور ری اسٹوریشن میں تربیت دینا وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای کوجن اور گرین پلاسٹک جیسے اقدامات پاکستان کے سبز مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں، یہ ہماری آخری وارننگ ہے، متحد ہو کر اقدام کریں یا انہدام کے لیے تیار رہیں، ہمارا ہدف زندگیاں بچانا ہے لیکن بجٹ میں پہلا وار انہی اداروں پر کیا گیا جنہوں نے انسانی صحت کے حوالے سے چیلنجز پر قابو پانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوات میں الرٹس بالکل واضح تھے، این ڈی ایم اے نے بروقت خبردار کیا مگر صوبائی سطح پر سنجیدہ اقدام نہیں لیا گیا، یورپ میں 40 ڈگری پر ایمرجنسی لگ جاتی ہے، ہم یہاں 50 ڈگری جھیل رہے ہیں۔

سینیٹر نے مزید کہا کہ جب پانی نیچے آتا ہے تو موسم کا نظام اور وارننگ سروسز کمزور پڑ جاتی ہیں، دنیا بھر میں موسم کی پیش گوئی کم ہو رہی ہے جب کہ تباہی بڑھتی جا رہی ہے، زرعی شعبہ اور خوراک کی سلامتی اب ہر ملک کے لیے سب سے اہم مسئلہ بن چکی ہے، خوراک دستیاب نہیں ہو رہی مگر بحث و مباحثے جاری ہیں اور گھر جل رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025