عمران خان نے ججز ٹرانسفر کیس کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کردی
بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے سپریم کورٹ میں ایک انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئینی بینچ کے فیصلے میں 3 ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں تقرری کو برقرار رکھنے سے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور آئینی طور پر طے شدہ تقرری کے عمل کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئینی بینچ نے 3/2 کی اکثریتی رائے سے فیصلہ دیا تھا کہ مختلف ہائی کورٹس سے 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئین کے مطابق تھا۔
یہ درخواست سینئر وکیل ادریس اشرف کے ذریعے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ 19 جون کے فیصلے میں مستقل طور پر منتقل ہونے والے ججز کو آرٹیکل 200 کے تحت مالی مراعات اور سہولیات کے حوالے سے مختلف انداز میں دیکھا گیا، جس سے ایک جیسے حالات میں موجود ججز کے درمیان عدم مساوات پیدا ہوئی جو امتیازی سلوک ہے اور آئین کے منافی ہے۔
یہ سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی آٹھویں اپیل ہے، اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحٰق خان اور ثمن رفعت امتیاز کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور بار ایسوسی ایشن، کراچی بار ایسوسی ایشن، پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین، راجا مقصود نواز خان اور ریاست علی آزاد بھی ایسی اپیلیں دائر کر چکے ہیں۔
عمران خان نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئینی بینچ یہ فرق کرنے میں ناکام رہا کہ آئین کے تحت صدر کے اختیارات اور فرائض میں کیا فرق ہے، صدر صرف کابینہ یا وزیراعظم کے مشورے پر ہی فرائض انجام دیتا ہے۔
19 جون کے فیصلے میں اختیارات کا حوالہ دینا ایسا تاثر دیتا ہے کہ صدر خود مختار حیثیت رکھتا ہے، جو آئینی طور پر درست نہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ آرٹیکل 200 صدر کو عدالتی تبادلے شروع یا حتمی شکل دینے کا کوئی اختیاری اختیار نہیں دیتا، کیونکہ صدر ایک رسمی سربراہ ہوتا ہے اور ہمیشہ انتظامیہ کے مشورے پر عمل کرتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ آئینی بینچ کا معاملہ یہ طے کرنے کے لیے واپس بھیجنا کہ تبادلہ عارضی تھا یا مستقل، ایک عدالتی سوال کو صدر کے سپرد کرنا ہے، جو عدلیہ کی خودمختاری کو مجروح کرتا ہے اور اختیارات کی تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ آرٹیکلز 200 (1) اور 200 (2)، جو 1956 کے آئین سے اب تک ساتھ ساتھ موجود ہیں، ظاہر کرتے ہیں کہ عدالتی تبادلے عارضی ہوتے ہیں اور شق (2) جس میں کہا گیا ہے کہ تبادلہ شدہ جج اپنی اصل ہائی کورٹ سے وابستہ رہتا ہے، اس عارضی حیثیت کو مزید تقویت دیتی ہے۔
ایسے تبادلوں کو مستقل قرار دینا آئین میں موجود الفاظ میں ایسی زبان شامل کرنے کے مترادف ہے جو وہاں موجود ہی نہیں، جو کہ عدالتی حد سے تجاوز ہے اور آئین کی ازسرنو تدوین کے مترادف ہے۔
بھارت کے برعکس، جہاں آئین کا آرٹیکل 217 تبادلے پر عہدہ خالی ہونے کو واضح طور پر بیان کرتا ہے، پاکستان کا آئین ایسی کوئی خالی اسامی پیدا نہیں کرتا۔
درخواست میں کہا گیا ایسی صورت میں تبادلہ شدہ جج اپنی اصل ہائی کورٹ سے وابستگی اور سنیارٹی برقرار رکھتا ہے۔
درخواست کے مطابق سنیارٹی عدلیہ کا ایک انتظامی معاملہ ہے، نہ کہ کوئی انتظامی (ایگزیکٹو) اختیار، صدر کو سنیارٹی کا تعین کرنے کی اجازت دینا عدالتی درجہ بندی اور خودمختاری میں انتظامیہ کی مداخلت کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 175-اے عدالتی تقرریوں کو منظم کرتا ہے اور اس کا آرٹیکل 200 سے کوئی تعلق یا تکرار نہیں ہے، آرٹیکل 200 کی ایسی تشریح جو تقرریوں کو تبادلوں کے ذریعے ممکن بنائے، آرٹیکل 175-اے کو غیر مؤثر بنا دیتی ہے اور آئینی تضاد پیدا کرتی ہے۔
مزید برآں آرٹیکل 200 کے تحت مستقل طور پر منتقل کیے گئے ججز کے ساتھ مالی مراعات اور سہولیات میں فرق برتنا ایک جیسے حالات میں موجود ججز کے درمیان عدم مساوات پیدا کرتا ہے، جو کہ امتیازی اور غیر آئینی ہے۔












لائیو ٹی وی