کرپٹو کرنسی پاکستان کی مالیاتی مدد کرے گی یا ماحولیاتی خطرات میں اضافہ؟

شائع July 21, 2025

پنجاب سیلاب کی زد میں ہے، عسکریت پسندانہ حملے روزانہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں جبکہ پاکستان میں تقریباً ہر تین میں سے ایک بچہ اسکول جانے سے محروم ہے۔ لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جہاں یہ ملک 21ویں صدی کی جدید دنیا کی جانب پیش قدمی کررہا ہے اور وہ ہے کرپٹوائزیشن۔

اب آیا یہ پاکستان کی معاشی خودمختاری کے مستقبل کے لیے زبرست اقدام اور ٹرمپ کارڈ ہے (یہاں ٹرمپ ذومعنی ہے) یا ریاست کی غلطی جس کے برے نتائج مرتب ہوں گے، اس کا انحصار اس پر ہوگا کہ منصوبے پر عمل درآمد کس طرح کیا جاتا ہے۔

صرف چند ماہ میں ہی پاکستان جوکہ کرپٹو کے خلاف تھا اور جس کے اسٹیٹ بینک نے تمام طرح کی کرپٹو منتقلی پر پابندی عائد کی تھی، پاکستان کرپٹو کونسل نامی سرکاری ادارہ قائم کرچکا ہے جبکہ اس نے کرپٹو معاملات کی نگرانی کے لیے ایک رہنما مقرر کیا ہے اور ایک نئی ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے قوانین بنانا شروع کر دیے ہیں۔

پاکستان کے کرپٹوائزیشن کو کرپٹو سفارت کاری کی فتح کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ڈیجیٹل اثاثوں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرپٹو میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ ان کا خاندان ورلڈ لبرٹی فنانشل نامی کمپنی کی حمایت کرتا ہے جو خاموش معاہدے کے ذریعے پاکستان کو بلاک چین اور کرپٹو مشاورت فروخت کررہی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امریکا کے ممکنہ تجارتی محصولات کے پیش نظر، پاکستان کے کرپٹو مائننگ کے علاقائی مرکز بننے کے منصوبے کو واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں ایک زبردست اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

لیکن یہ صرف سفارت کاری کے بارے میں نہیں۔ پاکستان اب ایسی چیز کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو پہلے ہی روزمرہ کی معاشی منطرنامے کا حصہ بن چکی ہے۔ تحقیقی کمپنی چین اینیلیسس کے مطابق 2024ء میں پاکستان کرپٹو کے استعمال میں دنیا کے ٹاپ 10 ممالک میں نویں نمبر پر تھا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 2 کروڑ پاکستانیوں نے ڈیجیٹل اثاثوں میں تقریباً 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔

یہ غیرمعمولی بات نہیں۔ کرپٹو کرنسیز اور اسٹیبل کوائنز، بالخصوص بلند افراط زر، کرنسی کی گرتی ہوئی قدر اور زرمبادلہ پر سخت کنٹرول میں اپنے پیسے کی حفاظت اور ڈالرز کی بچت کرنے کا ایک آسان طریقہ ہے جن کا پاکستان کو حال ہی میں سامنا کرنا پڑا ہے۔

کرپٹو سرحد پار رقم بھیجنے کا آسان اور سستا ذریعہ بھی ہے۔ لیکن یہ رقم کہاں جارہی ہے، اس کی نگرانی کرنے کے لیے فوری طور پر ریگولیشن کی ضرورت ہے۔ اگر زیادہ لوگ اپنی بچت کو مقامی بینکس سے باہر اور اسٹیبل کوائنز میں منتقل کرتے ہیں تو یہ بینکوں کی لیکویڈیٹی اور اندرونِ ملک بینکوں کے رقم قرض دینے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

موجودہ کرپٹو مارکیٹ کو بہتر ریگولیٹ کرنے (اور بلآخر اس پر ٹیکس لگانے) کے علاوہ پاکستان نے مسابقتی کرپٹو کرنسی مائننگ کی صلاحیت فراہم کرنے کے لیے اضافی توانائی اور نوجوان افرادی قوت کو استعمال کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور یوں اس طرح مزید غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں اس بیانیے پر یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ کرپٹو ترقی پذیر ممالک میں مالیاتی خدمات کو ہر کسی کے لیے زیادہ قابل رسائی بناتے ہوئے ممالک کی مدد کرسکتا ہے۔

اگرچہ کرپٹو بڑے مواقع پیش کرتا ہے لیکن اس کے اپنی خطرات بھی ہیں۔ جبکہ کرپٹو مشیر بلال بن ثاقب بار بار تعمیل کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں وہیں پاکستان کے موجودہ اقتصادی اور سیکیورٹی چیلنجز اسے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کی وجہ سے کمزور بنا دیتے ہیں۔ ملک کو 2022ء میں ہی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالا گیا تھا، اس لیے ان خطرات پر اسے تشویش ہونی چاہیے۔

اگرچہ حکومت منی لانڈرنگ کو روکنے کی بات کرتی ہے لیکن وزیر اعظم نے بائنانس کمپنی کے بانی چانگپینگ ژاؤ کو کرپٹو کونسل کا مشیر مقرر کیا ہے حالانکہ حال ہی میں انہیں انسدادِ منی لانڈرنگ کے قوانین کی تعمیل پر ناکامی پر امریکا میں 4 ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔

مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ رپورٹس کے مطابق عسکریت پسند گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مبینہ طور پر عطیات کے لیے بائنانس کے استعمال کی درخواست کررہا ہے۔ اگر پاکستان کے پاس کرپٹو کو منظم کرنے کے لیے درست علم اور مضبوط اصول نہیں ہیں تو اسے ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اسے کرپٹو کے میدان میں انتہائی احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو بھی یہ غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے کہ کرپٹو خود بخود غریب لوگوں کو مالیاتی خدمات تک رسائی میں مدد دے گا۔ حقیقت میں زیادہ تر دولت مند لوگ کرپٹو کا استعمال کر رہے ہیں جن کے پاس اپنی بچت کو محفوظ رکھنے کے لیے اسٹیبل کوائنز میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے اضافی رقم موجود ہے۔ یہ اپنی کمائی کے آف شور اثاثے بنانے جیسا ہے۔

کرپٹو کم آمدنی والے گروہوں کی مدد نہیں کر رہا ہے جیسے وہ خواتین جو بنیادی بینک اکاؤنٹس بھی نہیں کھول سکتی ہیں۔ اگر پاکستان کے موجودہ ’کرپٹو مینیا‘ کے حصے کے طور پر غریبوں کو شامل کرنے اور ان کی مدد کرنے کا کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں تو یہ اشرافیہ کے لیے زیادہ طاقت حاصل کرنے کا ایک اور ذریعہ بن کر رہ جائے گا۔

اور آخر میں آب و ہوا بھی قابلِ تشویش ہے جو موسمیاتی خطرات سے دوچار پاکستان جیسے کمزور ملک میں پالیسی سازی کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ کرپٹو مائننگ کاربن کے اخراج کا اہم ذریعہ ہے۔ ہر بٹ کوائن کی لین دین اتنا ہی کاربن پیدا کرتی ہے جتنا کہ ایک پیٹرول کار ایک ہزار 600 سے دو ہزار 600 کلومیٹر تک چلنے سے خارج کرتی ہے جبکہ یہ سوئمنگ پول کو بھرنے جتنا پانی استعمال کرتی ہے۔

کرپٹو مائننگ کا مرکز بننے کی کوشش کرتے ہوئے بین الاقوامی موسمیاتی فنڈز کا مطالبہ کرنا پاکستان کے لیے بےمعنی ہے۔ ایک ایسا ملک جس میں پانی کی قلت ہے وہاں کرپٹو مائننگ کے منصوبے کو برقرار رکھنے پر خاموشی خاص طور پر تشویشناک ہے۔

ہم کرپٹو میں سرمایہ کاری کے فوائد صرف اسی صورت میں حاصل کرسکتے ہیں کہ اگر ہم اپنے دیگر بڑے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ڈیجیٹل اثاثہ پالیسیز کو تشکیل دیں۔ کم از کم ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے اتنا سبق تو سیکھنا چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
ہما یوسف

لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025