• KHI: Partly Cloudy 26.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C

ٹرمپ کی پاکستان میں بڑھتی دلچسپی نے بھارت کو چین سے تعلقات پر نظرثانی پر مجبور کر دیا

شائع July 21, 2025
فوٹو: رائٹرز
فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ساتھ ظہرانے کی ملاقات پر بھارت نے واشنگٹن کو اپنے دو طرفہ تعلقات کو لاحق خطرات سے خبردار کرتے ہوئے نجی سطح پر سفارتی احتجاج ریکارڈ کرایا ہے جبکہ نئی دہلی اب چین سے تعلقات کو ایک حفاظتی حکمت عملی کے طور پر دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ملاقات اور امریکا-بھارت تعلقات، جو دہائیوں تک مضبوط رہے، میں دیگر کشیدگیوں نے تجارتی مذاکرات کو بھی متاثر کیا ہے، کیونکہ ٹرمپ کی انتظامیہ اپنے ایک بڑے اتحادی پر محصولات (ٹیکس) لگانے پر غور کر رہی ہے۔

اس معاملے سے براہِ راست آگاہ بھارتی حکومت کے تین سینئر عہدیداروں نے رائٹرز کو بتایا کہ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان، خاص طور پر اس کا فوجی ادارہ، مبینہ طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے اور امریکا کو بتایا ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو قریب کر کے امریکا غلط پیغام دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ایک نیا تنازعہ پیدا ہوا ہے جو آگے جا کر تعلقات میں رکاوٹ بنے گا۔

پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ بھارت کے خلاف شدت پسندوں کی مدد کرتا ہے اور کہا ہے کہ نئی دہلی نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

گزشتہ دو دہائیوں میں امریکا-بھارت تعلقات مضبوط ہوئے ہیں، اگرچہ درمیان میں کچھ رکاوٹیں آئیں، اور اس کی ایک بڑی وجہ دونوں ممالک کی چین کو متوازن رکھنے کی کوشش ہے۔

واشنگٹن میں ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے سینئر فیلو مائیکل کُگلمین نے کہا کہ موجودہ مسائل کچھ مختلف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’ جس شدت اور تسلسل سے امریکا پاکستان سے رابطہ کر رہا ہے اور خاص طور پر بھارت کے خدشات کو نظر انداز کر رہا ہے، خاص طور پر حالیہ بھارت-پاکستان تنازعے کے بعد، اس سے دو طرفہ تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوئی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ’ اس بار تشویش کی بات یہ ہے کہ وسیع تر کشیدگی کی ایک وجہ، یعنی ٹرمپ کی غیر متوقع حکمت عملی، اب تجارتی شعبے تک بھی پھیل رہی ہے، خاص طور پر ان کے محصولات کے طریقے کی وجہ سے۔’

وزیراعظم نریندر مودی کے دفتر اور بھارت کی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا، وزارت خارجہ پہلے کہہ چکی ہے کہ اس نے ٹرمپ- عاصم منیر ملاقات کا نوٹس لیا ہے۔

امریکی عہدیدار نے کہا کہ وہ نجی سفارتی رابطوں پر تبصرہ نہیں کرتے اور امریکا کو بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات حاصل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’ یہ تعلقات اپنی اپنی بنیادوں پر قائم ہیں اور ہم اپنے دو طرفہ تعلقات کا آپس میں موازنہ نہیں کرتے۔’

وائٹ ہاؤس میں ظہرانہ

امریکا نےمئی میں ہونےو الی پاک بھارت مختصر جنگ کے بعد مختلف رویہ اپنایا ہے۔

مئی میں ہونے والی مختصر جنگ کے چند ہفتے بعد ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ظہرانے پر مدعو کیا، جو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ایک بڑی پیش رفت تھی۔

ٹرمپ کے پہلے دور حکومت اور جو بائیڈن کے دور میں یہ تعلقات جمود کا شکار رہے تھے، یہ پہلا موقع تھا کہ کسی امریکی صدر نے پاکستانی فوج کے سربراہ کو بغیر کسی سینئر پاکستانی سول حکام کے وائٹ ہاؤس مدعو کیا۔

بھارتی رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ آرمی چیف سید عاصم منیر کا بھارت اور پاکستان سے متعلق نقطہ نظر مذہب سے جڑا ہوا ہے، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پہلگام حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’ سیاحوں کو ان کے خاندانوں کے سامنے ان کے مذہب کی تصدیق کے بعد قتل کیا گیا۔’

انہوں نے کہا کہ’ اسے سمجھنے کے لیے آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستانی قیادت، خاص طور پر ان کا آرمی چیف، انتہا پسند مذہبی سوچ رکھتا ہے۔’

پاکستان کا کہنا ہے کہ مودی مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہیں اور ان کی ہندو قوم پرستی کی پالیسی نے بھارت کی بڑی مسلم آبادی کے حقوق کو پامال کیا ہے، مودی اور بھارتی حکومت کہتے ہیں کہ وہ اقلیتوں سے امتیازی سلوک نہیں کرتے۔

آرمی چیف سید عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات نے ٹرمپ کی اس بات پر بھی بھارت کو ناراض کیا کہ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان جوہری جنگ کو تجارتی مذاکرات روکنے کی دھمکی دے کر روکا۔

اس تبصرے پر مودی نے ٹرمپ کو جواب دیا کہ جنگ بندی دونوں ممالک کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت سے ممکن ہوئی، نہ کہ امریکا کی مداخلت سے۔

دو عہدیداروں نے بتایا کہ 18 جون کو فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کے بعد، مودی کے دفتر اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر کے دفتر سے امریکی ہم منصبوں کو علیحدہ علیحدہ کالز کی گئیں تاکہ احتجاج ریکارڈ کرایا جا سکے، اس احتجاج کی پہلے اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

ایک سینئر بھارتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ’ ہم نے امریکا کو سرحد پار دہشت گردی کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے، جو ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، یہ مشکل وقت ہے… ٹرمپ کا ہمارے خدشات کو نہ سمجھنا تعلقات میں کچھ دراڑ پیدا کرتا ہے۔’

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ( آئی ایس پی آر ) کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ٹرمپ اور آرمی چیف سید عاصم منیر نے انسداد دہشت گردی تعاون جاری رکھنے پر تبادلہ خیال کیا، جس کے تحت امریکا نے پہلے بھی پاکستان کو ہتھیار فراہم کیے ہیں، اور تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر بات چیت کی گئی۔

دو عہدیداروں نے بتایا کہ اس سے نئی دہلی میں تشویش پیدا ہوئی کہ اگر ہمسایہ ممالک کے درمیان دوبارہ جنگ چھڑ گئی تو امریکا سے ملنے والے ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔

سخت مؤقف

بھارتی عہدیداروں اور ایک بھارتی صنعتکار نے بتایا کہ بھارت نے حالیہ ہفتوں میں امریکا کے خلاف نسبتاً سخت مؤقف اختیار کیا ہے جبکہ تجارتی مذاکرات بھی سست روی کا شکار ہیں۔

مودی نے جون میں کینیڈا میں جی-7 اجلاس کے بعد ٹرمپ کی واشنگٹن آنے کی دعوت قبول نہیں کی تھی۔

اس مہینے کے شروع میں نئی دہلی نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) میں امریکا کے خلاف جوابی محصولات کی تجویز دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارت پر بات چیت اب پہلے جیسی ہموار نہیں رہی۔

انڈیا آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے خارجہ پالیسی کے سربراہ ہارش پنت کا کہنا ہے کہ انڈیا اب دیگر ممالک کی طرح ٹرمپ سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کر رہا ہے اور چین کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ’یقیناً چین کے ساتھ رابطہ بڑھ رہا ہے… اور میرا خیال ہے کہ یہ دوطرفہ ہے… چین بھی رابطہ بڑھا رہا ہے۔’

گزشتہ ہفتے بھارت کے جے شنکر نے 2020 کی سرحدی جھڑپ کے بعد پہلی بار بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔

بھارت اب چین سے سرمایہ کاری پر لگائی گئی پابندیاں بھی نرم کرنے کے اقدامات کر رہا ہے جو 2020 کی جھڑپ کے بعد عائد کی گئی تھیں۔

یہ سب کچھ چین کے ساتھ بھارت کے کشیدہ تعلقات اور پاکستان کے ساتھ چین کی قریبی دوستی و فوجی تعاون کے باوجود ہو رہا ہے۔

لیکن نئی دہلی کو ٹرمپ کی چین کے ساتھ پالیسی، جو کبھی دوستانہ تو کبھی محاذ آرائی پر مبنی رہی، پر تشویش ہے جس نے بیجنگ کے بارے میں اس کے مؤقف میں تبدیلی میں کردار ادا کیا ہے۔

نیویارک میں یونیورسٹی آف البانی کے سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹوفر کلاری نے کہا کہ’ وائٹ ہاؤس میں ایک غیر متوقع ڈیل میکر کے ساتھ، نئی دہلی چین-امریکا مصالحت کے امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔’

انہوں نے کہا کہ’ بھارت پاکستان کو چینی مدد اور بھارت کے قریبی ہمسایہ ممالک جیسے بنگلہ دیش میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہے، پھر بھی نئی دہلی نے بڑی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا جواب اپنے قریبی ہمسایوں پر دباؤ ڈال کر دینا چاہیے، نہ کہ براہ راست چین پر۔’

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025