اداریہ: ’9 مئی کے مقدمات کو زیادہ احتیاط سے نمٹایا جانا چاہیے تھا‘

شائع July 24, 2025

یہ ایک اور یاد دہانی تھی کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران کتنا پیچیدہ ہے۔ دو الگ الگ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں نے منگل کو کئی سیاسی رہنماؤں اور پارٹی کارکنان کو ’اشتعال انگیز‘ تقاریر، ہنگامہ آرائی میں ملوث ہونے اور 9 مئی 2023ء کو دیکھی جانے والی توڑ پھوڑ کی کارروائیوں میں طویل مدتی قید کی سزاؤں کا فیصلہ سنایا۔

معاملہ ختم کرے کے بجائے یہ فیصلے پہلے سے جاری سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ کریں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مقدمات قابل اعتماد گواہی یا ٹھوس شواہد کے بغیر چلائے گئے جو افراد پر جرائم کو ثابت کرتے اور جب انہیں اعلیٰ عدالتوں میں لے جایا جائے گا تو عدم شواہد پر ان فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔

یہ نئی بات نہیں ہوگی۔ پاکستان میں سیاسی رہنماؤں پر قتل، غداری، بغاوت اور ریاست مخالف سرگرمیوں جیسے سنگین الزامات کے تحت مقدمات چلائے جانے کی ایک طویل تاریخ موجود ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ بری ہو جاتے ہیں۔

وہ سیاست دان جو برسوں حتیٰ کہ دہائیوں تک جیلوں میں بند رہے، بعد ازاں حکومتوں کی قیادت کرنے اور پالیسی تشکیل دینے کے لیے ایک بار پھر منظرنامے میں واپس آئے۔ ایسے بہت سے لوگ آج حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔

سیاسی معاملات عدالتی کمروں میں کم ہی طے پاتے ہیں۔ اکثر ان کا فیصلہ ججز نہیں بلکہ عام لوگ کرتے ہیں جو نہ صرف ملزمان کی بلکہ الزامات لگانے والوں کی بھی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اس لیے 9 مئی کے مقدمات کو زیادہ احتیاط سے نمٹایا جانا چاہیے تھا۔

مثال کے طور پر سیاسی تقاریر اور سیاسی تشدد کے مقدمات کو انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان پر معیاری فوجداری قوانین کے تحت مقدمہ چلانا ہی کافی ہوتا۔

اس کے بجائے ریاست نے سیاسی اختلاف کو دہشتگردی کے طور پر دیکھنے کو ترجیح دی۔ اس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ٹرائلز کو ٹی وی پر نشر نہیں کیا جائے گا جس سے عوام کو ان کی انصاف پسندی پر شک کرنے کی اور وجہ ملی۔

اگر عدالت کے پاس ملزم کے خلاف ’ناقابل تردید ثبوت‘ اور ’ناقابل تردید شہادتیں‘ تھیں، جیسا کہ دعویٰ کیا گیا ہے تو اسے عوام کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے تھا۔ چونکہ ٹرائلز جس طرح چلائے گئے اس میں انصاف کبھی ’دیکھا‘ نہیں گیا اور اس حوالے سے شکوک و شبہات برقرار رہیں گے کہ یہ سزائیں کیسے دی گئیں۔

دو سال سے 9 مئی کے مختلف مقدمات کے سلسلے میں زیر حراست مشتبہ افراد زیر حراست ہیں جنہیں بار بار ضمانت دینے سے انکار کیا گیا اور وہ اپنے خلاف مقدمات کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ ایسے تمام مقدمات کو ختم کرنے کے لیے آخری تاریخ مقرر نہ کرتی تو لاہور اور سرگودھا انسداد دہشت گردی عدالتوں کی طرف سے سنائے جانے والے فیصلوں میں مزید تاخیر ہوسکتی تھی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ بعد کی کارروائی منظرعام پر ہوگی اور مبصرین کو ان پر آزادانہ رائے قائم کرنے کا موقع ملے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک سیاسی بحران میں گھسیٹا گیا ہے جس سے وہ فرار ہونے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ حکمرانی کرنے والوں کو یہ سبق سمجھنا چاہیے جو کئی دہائیوں سے بدستور برقرار ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں سے اپنے ناقدین کو کچھ وقت کے لیے خاموش تو کر سکتے ہیں لیکن یہ عوام ہی ہیں جو بلآخر سیاسی فیصلے دیتے ہیں۔ جتنی جلدی انہیں اس بات کا احساس ہو جائے گا اتنا ہی ملک کے لیے بہتر ہو گا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025