ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان میں صفائی کے عملے کی ہولناک حالتِ زار بے نقاب
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صفائی کے عملے، جن میں اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے، کو ان کے کام اور ذات کی بنیاد پر شدید امتیازی سلوک اور بدنامی کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ’ہمیں کاٹ کر دیکھو، ہمارا خون بھی ان جیسا ہے‘ کے زیرعنوان یہ رپورٹ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور سینٹر فار لا اینڈ جسٹس کی مشترکہ تحقیق پر مبنی ہے۔
اس رپورٹ میں شامل ڈیٹا لاہور، بہاولپور، کراچی، عمرکوٹ، اسلام آباد اور پشاور سے جمع کیا گیا ہے۔ تحقیق کاروں نے مسیحی، ہندو اور مسلم سینیٹری ورکرز سے بات کی تاکہ ذات کی بنیاد پر امتیاز کے اثرات کو سمجھا جا سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ مسیحی آبادی کی اکثریت اُن ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے جنہیں تاریخی طور پر صفائی کا کام دیا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ صفائی جیسا ناپسندیدہ پیشہ آج بھی ’نچلی ذات‘ کے غیر مسلموں سے منسلک کر دیا گیا ہے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی 2022 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 80 فیصد غیر مسلم اقلیتیں سرکاری اداروں میں نچلے درجے کی ملازمتوں پر کام کر رہی ہیں، صفائی کے پیشے سے وابستہ خواتین کو مذہب، ذات اور صنف کی بنیاد پر تہرے امتیاز کا سامنا ہے، ان میں سے آدھی خواتین نے کام کی جگہ پر ہراسانی کی شکایت کی۔
رپورٹ میں شامل متعدد افراد نے بتایا کہ انہیں توہین آمیز القابات سے پکارا جاتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ برتن یا کھانے کی جگہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اور عوامی مقامات پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
بعض معاملات میں صفائی کے عملے پر توہین مذہب کے الزامات بھی لگائے گئے، جن میں آسیہ بی بی کا معاملہ نمایاں ہے، اگست 2023 میں جڑانوالہ میں اسی نوعیت کے الزام کے بعد 20 سے زائد گرجا گھروں اور 80 مسیحی گھروں پر حملے ہوئے۔
تحقیق میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 2010 سے مارچ 2025 تک کے تقریباً 300 سرکاری ملازمتوں کے اشتہارات میں صفائی کے کام کے لیے غیر مسلم یا ’نچلی ذات‘ کے افراد کو ترجیح یا لازم قرار دیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذات پر مبنی ملازمت کا نظام ادارہ جاتی طور پر موجود ہے۔
ایمنسٹی نے پایا کہ مختلف سرکاری اداروں میں عیسائیوں کو غیر متناسب طور پر نچلے درجوں اور خاص طور پر صفائی کی ملازمتوں میں رکھا گیا۔
تحقیق کے مطابق صفائی کا عملہ تین اقسام پر مشتمل ہے جن میں مستقل، کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین شامل ہیں، بیشتر ادارے انہیں مستقل نہیں کرتے تاکہ انہیں قانونی حقوق اور سیکیورٹی نہ مل سکے، کئی ادارے 89 دن کے معاہدے دیتے ہیں تاکہ کارکن صنعتی قوانین کے تحت مستقل قرار نہ پائیں۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ صفائی کا بیشتر عملہ سوشل سیکیورٹی اور فلاحی اسکیموں سے محروم ہے اور انہیں ان سہولتوں کی آگاہی بھی نہیں۔
2024 میں پاکستان میں کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی، تاہم تحقیق کے وقت یہ 32 ہزار روپے تھی، نصف سے زائد عملے کو اس سے بھی کم تنخواہ دی جارہی تھی اور جنہیں مکمل تنخواہ مل رہی تھی، ان میں اکثریت مردوں کی تھی، صفائی کا عملہ اکثر خطرناک حالات میں بغیر حفاظتی آلات یا تربیت کے کام کرتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سفارشات میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نالوں اور گٹروں کی صفائی کے لیے دستی مزدوری بند کر کے مشینری کا استعمال کیا جائے، آئین میں ذات پر مبنی امتیاز کے خلاف تحفظ شامل کیا جائے، امتیازی اشتہارات ختم کیے جائیں، مزدوروں کے تحفظ کے لیے قوانین میں ترمیم کی جائے، صفائی کے عملے کو مستقل کیا جائے اور انہیں تمام بنیادی انسانی حقوق فراہم کیے جائیں۔












لائیو ٹی وی