اگر جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ہوچکا تو بلوچ خواتین ایک بار پھر سڑکوں پر کیوں ہیں؟

شائع July 29, 2025

دو سال سے بھی کم عرصے بعد بلوچ خواتین ایک بار پھر احتجاج کے لیے اسلام آباد کا رخ کرچکی ہیں۔ لیکن اس دفعہ انہیں زیادہ توجہ نہیں مل سکی جوکہ حیران کُن نہیں۔

ایک ایسے وقت میں کہ جب ریاستیں اپنے عوام کے ساتھ تعلقات کی ازسرِ نو وضاحت کررہی ہیں بالخصوص ایسی ریاستیں جو سمجھتی ہیں کہ احتجاج کرنا عوام کا قانونی حق ہے، ان بلوچ خواتین کے ساتھ نہ صرف بے حسی بلکہ ناروا سلوک برتا جارہا ہے۔

انہیں پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں سڑکوں پر دھرنا دینے پر مجبور کیا گیا۔ مقامی دکاندار و تاجرین جو وقت کو لے کر حساس ہوتے ہیں، دھرنے کے باعث پریشان ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے اس شہر میں پہلے ہی بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کیا ہے جس میں تحریک لبیک پاکستان، پاکستان تحریک انصاف اور طاہر القادری کی جماعت کی جانب سے ماضی میں کیے جانے والے دھرنے شامل ہیں۔ بلوچستان کی خواتین یہ کیسے سوچ سکتی ہیں کہ انہیں پنجاب کے مردوں جتنا دھرنا کرنے کا حق حاصل ہے؟

2023-2024ء کے موسم سرما میں عبوری حکومت نے ان سے بات کرنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ موجودہ حکومت بھی کم مصروف نہیں مگر یہ عبوری حکومت کی نسبت مہربان ہے جس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آدھی رات کو خواتین کو نہیں نکالا اور نہ اس نے دیگر احتجاجی گروپس کو آس پاس آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ خیمے لگانے کی اجازت دی جس سے خواتین کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ وہ تنہا مصائب کا شکار نہیں۔

ان مظاہرین میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لیڈر ماہ رنگ بلوچ کی بہن بھی شامل ہیں۔ وہ اسلام آباد اس لیے آئی ہیں کیونکہ ماہ رنگ کوئٹہ میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ماہ رنگ و ان کی جماعت کے دیگر افراد پر الزامات لگائے جارہے ہیں کہ ان کے دہشتگرد گروہوں سے روابط ہیں۔ ان پر غیرمحب الوطن ہونے جیسے کوئٹہ کے ہسپتال میں زبردستی گھس کر مردہ خانے سے لاشیں چرانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔

ان میں سے کون سے الزامات سرکار کی چارج شیٹ کا حصہ ہیں، یہ تو واضح نہیں کیونکہ اسلام آباد، لاہور یا پشاور میں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں پر توجہ مرکوز کرنے والے میڈیا نے اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں دیں۔

یہاں تک کہ اگر مجھے مزید تفصیلات معلوم ہوتیں تب بھی میں سوچتی ہوں کہ آیا گرفتار کیے گئے لوگوں کے خلاف لگائے گئے الزامات پر سوال اٹھانا مناسب ہوگا یا نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہم پہلے تو الزامات کو لے کر بہت پُرجوش ہوجاتے ہیں لیکن جب مقدمہ ٹی وی اسٹوڈیوز سے عدالتوں میں پہنچتا ہے اور جب اصل ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ جوش ختم ہوجاتا ہے۔ اکثر ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ استغاثہ کا کام ناقص ہوتا ہے حالانکہ بہت سے جج اب بھی منصفانہ انداز میں اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام آباد کے قریب مقدمات میں ایسا بار بار دیکھنے میں آیا ہے لیکن اس کے باوجود جب بھی لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو لوگ ان پر لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر انہیں مجرم تصور کرلیتے ہیں۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا جارہا ہو؟

یہ ایک غیر متعلقہ سوال ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے طریقوں سے بلوچستان باقی ملک سے بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ وہاں کی زندگی ہم میں سے اکثر کے تجربے سے بہت مختلف ہے۔ بلوچ عوام کے لیے ماہ رنگ ایک نوجوان خاتون ہے جو جیل میں ہے جسے انصاف ملنے کی بہت کم امید ہے جو ہمدردی اور اپنے قانونی حقوق دونوں کی مستحق ہے۔ کچھ معروف وکلا ایک ’بچی‘ کے جیل میں ہونے پر سخت ناراض ہیں جس کی رہائی کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ عدالتوں اور قوانین میں حالیہ تبدیلیوں نے گرفتار کیے گئے لوگوں کے لیے ضمانت یا رہائی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئے قوانین سے جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ اب حکام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بغیر کسی الزام کے لوگوں کو تین ماہ تک حراست میں لے سکیں۔ اور اس طرح زیرِ حراست لوگوں کو اپنے پیاروں سے ملنے کی بھی اجازت ہوگی۔ ہر ایک کو دوسرے کی خیریت معلوم ہوگی۔

لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ خواتین اسلام آباد کی سخت گرمی میں کنکریٹ کے سخت فرش پر بیٹھی اپنے منتخب نمائندگان کی توجہ کی طالب کیوں ہیں؟ شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد لوگ سب بھول جاتے ہیں اور وہ باتیں بھی بھلا بیٹھتے ہیں جن کے لیے وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے دعوے کیا کرتے تھے۔ لیکن میں موضوع سے بھٹک رہی ہوں۔ میں قوانین میں تبدیلیوں کے فوائد بتارہی تھی۔

اقتدار میں رہنے والوں کو یقین ہے کہ مستقبل میں حالات کیسے بہتر ہوں گے۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ یہ ان لوگوں کی مدد کیسے کرے گا جو اپنے لاپتا رشتہ داروں کا برسوں بلکہ دہائیوں سے ایک تصویر اور کچھ یادوں کے سہارے انتظار کر رہے ہیں؟ ان کے زخم کیسے بھریں گے؟

اگر ماہ رنگ اور سمی بلوچ جیسے لوگ اتنے دردناک تجربات نہ گزرے ہوتے تو شاید انہیں کوئی بھی نہ جانتا ہوتا۔ انہوں نے اپنے پیاروں کو کھو کر اپنا وقت احتجاج میں گزارا جبکہ ہم میں سے باقی اسکول جا رہے تھے، کھیل رہے تھے اور معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔

کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ ماہ رنگ اسلام آباد سے بہت دور پاکستان کے ایک حصے میں اس قدر اہمیت کیوں رکھتی ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کیونکہ ان کی کہانی بہت سے لوگوں سے مماثلت رکھتی ہے اور ان کے جیسے تجربات سے بہت سے دیگر لوگ بھی گزرے ہیں۔ اگر پاکستان کو بلوچستان میں بہتری لانی ہے تو ان کے مصائب کی داد رسی ہونی چاہیے۔

اس سے ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی بلوچستان کا سیاسی بحران صرف طاقت کے ذریعے حل ہو سکتا ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں میں بھی کام نہیں کرسکی۔ سرحد پار کابل کے لیے بھی پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے جہاں پرانی جارحانہ پالیسی کی جگہ بات چیت نے لے لی ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ یہاں بھی چیزوں پر دوبارہ غور کیا جائے اور بلوچستان میں زیادہ سوچ سمجھ کر طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کی جائے۔

یہ نہ تو آسان ہوگا نہ ہی جلدی۔ لیکن یہ اب بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے والی مرکزی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں سے بات چیت کرکے گفتگو کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ پہلا قدم ہوسکتا ہے جہاں دوسروں سے بات کرنا ممکن ہو، یہاں تک کہ ان لوگوں سے بھی جنہیں قبول کرنا یا جن کے ساتھ ڈیل کرنا مشکل ہے۔ اور مرکزی جماعتوں کے سیاستدانوں سے ہٹ کر ماہ رنگ جیسے لوگوں کو بھی اس گفتگو میں شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آخر کار برطانوی حکومت بھی سن فین سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئی تھی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور

لکھاری صحافی اور ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ‘نیوز وائز’ کی میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025