پاک-امریکا تیل معاہدہ: ’یہ ایک زیادہ نقصان دہ منصوبے کا صرف چھوٹا سا حصہ ہے‘

شائع August 1, 2025

اپنے مخصوص سنسنی خیز انداز میں گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں اعلان کیا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان ’تیل کے بڑے ذخائر‘ کی تلاش کے لیے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ بعدازاں واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اس کی تصدیق وزیرِ خزانہ پاکستان نے بھی کردی۔

متوقع طور پر دونوں فریقین نے ہی اس سیاہ سونے کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ٹرمپ نے صرف یہ بیان دیا کہ وہ ابھی یہ فیصلہ کرنے کے عمل میں ہیں کہ کون سی تیل کی کمپنی ’اس شراکت کی قیادت‘ کرے گی۔

پاکستانی حکام کی خوشی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی جانب سے مستقبل میں بھارت کو تیل کی فروخت کی جانے کے امکان کا ایک طنزیہ تبصرہ بھی کیا۔ جب بنیادی مقصد ایک دوسرے کی تعریف کرنا ہے تو پھر اس عمل میں حقائق کی پروا بھلا کسے ہے؟

اسی اثنا میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ پاکستانی برآمدات پر امریکی ٹیرف کم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ایک بار پھر کوئی عدد فراہم نہیں کیا گیا لیکن بھارت پر 25 فیصد ٹیرف کی شرح کے نفاذ کے ٹرمپ کے اعلان کی وجہ سے ہمیں شاید جشن منانا چاہیے۔

ٹرمپ کے طریقہ کار اب پرانے ہوچکے ہیں جو ڈرامائی اثر رکھتے ہیں اور ذاتی مفاد کو اصل مادے پر فوقیت دے رہے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کی ہائبرڈ حکومت بھی اسی کشتی پر سوار ہوگئی ہے اور وہ مستقبل کے طویل مدتی سیاسی، اقتصادی یا ماحولیاتی مسائل کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے۔

سب سے پہلے اس سوال سے آغاز کرتے ہیں کہ کیا پاکستان کے پاس واقعی تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ سوئی اور گھوٹکی جیسے معروف مقامات جہاں سے پہلے ہی تیل و گیس حاصل کیا جارہا ہے، ان کے علاوہ ابتدائی مطالعات میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور ان کے مضافات اور یہاں تک کہ مزید اندرون ملک بھی تیل اور گیس کی نشاندہی کی گئی ہے۔

یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ سمندر میں مکران ساحل کے جنوب میں مرے رج زون کہلائے جانے والے ایک علاقے میں تیل کے ذخائر موجود ہیں لیکن فی الوقت یہ محض اندازے ہیں اور ان کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

ٹرمپ معاہدہ نہ صرف یہ اشارہ کرتا ہے کہ زمین کی سطح کے نیچے کیا ہے، اسے تلاش کیا جائے بلکہ اس کے لیے ڈریلنگ شروع کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ حکومت اور بڑی بین الاقوامی کمپنیز کی طاقتور شراکت کو سنگین مسائل کی پروا نہیں جیسے بلوچستان میں جاری تنازع، ساحلی ماحول کو پہنچنے والے نقصانات اور دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں پانی کی سپلائی کا سکڑنا وغیرہ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا موسمیاتی تبدیلی پر عدم یقین ان کے ہر موقع پر ’ڈرل بے بی ڈرل‘ کے نعرے سے صاف واضح ہے۔ لیکن حکومتِ پاکستان 2022ء کے تباہ کُن سیلاب کے بعد سے موسمیاتی تبدیلی پر یقین رکھتی ہے اور بارہا عالمی سیاسی اقتصادیات میں خود کو اس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک قرار دیتا ہے بالخصوص فوسل فیولز ترک کرنے کی تشہیر بھی کرتی ہے۔

تاہم یہ تضادات یہیں ختم نہیں ہوتے۔ گزشتہ چند ماہ میں پاکستانی تبصرہ نگار نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کافی توانائی صرف کی کہ ہمارے خطے اور پوری دنیا میں قابلیت کے اعتبار سے نئی سیاسی و اقتصادی صف بندی ہورہی ہے۔

مثال کے طور پر مئی میں پاک-بھارت فوجی تصادم میں ریاستی قوم پرست نعرہ بازی کے ساتھ ایک نئی جغرافیائی سیاسی تشکیل کے خواب بھی شامل تھے جس میں پاکستان امریکا، اسرائیل اور بھارت کے سہ فریقی اتحاد (ٹرائیکا) کے خلاف واضح طور پر چین کے ساتھ کھڑا تھا۔

اس تصور کا مزید پروپیگنڈا کرنے کا موقع اس وقت میسر آیا کہ جب صہیونی ریاست نے ایران کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا اور اس وقت پاکستانی حکام کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ثابت قدمی سے مغربی ٹرائیکا کی مخالفت میں کھڑا ہے۔

لیکن امید افزا سوچ ایک طرف کردیں تو اس بات پر یقین کرنے کی بہت کم وجوہات ہیں کہ پاکستان کا طاقتور، فوجی حمایت یافتہ طبقہ اصولوں کی واقعی پروا کرتا ہے، ایسے میں سامراج مخالفت کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ ٹرمپ کے ساتھ تیل کا معاہدہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ مخلوط حکومت، اس سے پہلے کی حکومتوں کی طرح اب بھی پاکستان کی زمین اور وسائل کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو فروخت کرنا درست سمجھتی ہے۔

خواہ زیربحث وسائل تیل، گیس یا معدنیات ہوں جنہیں قابل تجدید توانائی کی منتقلی کے لیے مرکزی حیثیت دی جا سکتی ہے، زیادہ حقدار مقامی کمیونٹیز کو ان کا حق دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور جب وہ مطالبات کرتے ہیں تو انہیں سزا بھی دی جاتی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور وسائل سے مالا مال پختون علاقوں میں نام نہاد انسداد دہشتگردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔

ٹرمپ انتطامیہ کے ساتھ تیل کے معاہدے کا جشن منانا صرف پہلے سے نظرانداز کیے جانے کا شکوہ کرتے لوگوں میں مزید بیگانگی کا احساس پیدا کرے گا جبکہ یہ میٹروپولیٹن علاقوں میں کام کرنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود میں کسی بھی طرح کا کوئی حصہ نہیں ڈالے گا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کو عوام اور ماحولیات کی کوئی پروا نہیں۔

درحقیقت معاہدے کی تفصیلات میں دیگر معدنیات اور کرپٹوکرنسی کے لیے مائننگ کی بھی بات کی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیل ایک بہت بڑے یا ممکنہ طور پر زیادہ نقصان دہ منصوبے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

اصل چیلنج یہ معلوم کرنا ہے کہ کون سا سیاسی گروہ ملک کو بہتر سمت میں لے جا سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اب بھی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن یہ غیر منظم اور ریاست کے مسلسل دباؤ میں ہے۔

ترقی پسند گروہ جو مرکزی دھارے کی سیاست کا حصہ نہیں ہیں، انہیں یہ امید رکھنا چھوڑ دینی چاہیے کہ حالات خود ہی بدل جائیں گے۔ انہیں موجودہ نظام کو چیلنج کرنے کے لیے ایک واضح منصوبے کے ساتھ اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ٹرمپ طرز کی سیاست حاوی رہے گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عاصم سجاد اختر

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025