ریلوے کی 4 ہزار ایکڑ اراضی پر سرکاری اور دفاعی ادارے قابض ہیں، قومی اسمبلی کو بریفنگ

شائع August 5, 2025
3 مالی سالوں میں ریلوے کی زمین لیز اور لائسنس پر دیکر 13 ارب 90 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی گئی — فائل فوٹو: ڈان
3 مالی سالوں میں ریلوے کی زمین لیز اور لائسنس پر دیکر 13 ارب 90 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی گئی — فائل فوٹو: ڈان

پاکستان ریلوے (پی آر) کی 3 ہزار 999 ایکڑ زمین اس وقت مختلف سرکاری اور دفاعی اداروں کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معلومات پیر کے روز قومی اسمبلی میں وزیر ریلوے حنیف عباسی نے 2 الگ الگ لیکن ملتے جلتے سوالات کے تحریری جوابات میں پیش کیں۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان ریلوے کی ملک بھر میں ایک لاکھ 68 ہزار 858 ایکڑ اراضی ہے، جس میں سے 13 ہزار 115 ایکڑ (7.7 فیصد) غیر قانونی قبضے میں ہے۔

گزشتہ 5 برسوں میں ریلوے نے غیر قانونی قابضین سے 2 ہزار 550 ایکڑ سے زائد اراضی واگزار کروائی ہے، تاہم ان جوابات میں سرکاری و دفاعی اداروں سے زمین واگزار کروانے کا کوئی ذکر نہیں۔

وفاقی وزیر کو یہ سوالات پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کی شازیہ مری اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شیر افضل مروت کی جانب سے موصول ہوئے تھے، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ان افراد، اداروں یا تنظیموں کے نام فراہم کریں جو ریلوے کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کیے ہوئے ہیں، قبضے کا مقام اور رقبہ بھی بتایا جائے۔

سوالات میں کہا گیا تھا کہ آگاہ کیا جائے کس صوبے میں کتنی زمین پر کس کا قبضہ ہے اور گزشتہ 5 برسوں میں کتنی زمین واگزار کرائی گئی۔

جواب میں قابضین کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا، جن میں زرعی، تجارتی، رہائشی، اور سرکاری/دفاعی ادارے شامل ہیں۔

جواب کے مطابق سب سے زیادہ 4 ہزار 773 ایکڑ زمین زرعی مقاصد کے لیے غیر قانونی طور پر استعمال ہو رہی ہے، اس کے بعد 3 ہزار 999 ایکڑ زمین پر سرکاری/دفاعی اداروں کا غیر قانونی قبضہ ہے۔

اس کے علاوہ 3 ہزار 266 ایکڑ زمین رہائشی استعمال میں ہے اور 712 ایکڑ زمین تجارتی استعمال میں غیر قانونی طور پر قابضین کے پاس ہے۔

صوبوں کے اعتبار سے سرکاری/دفاعی اداروں نے پنجاب میں 2 ہزار 539 ایکڑ، سندھ میں 764 ایکڑ، خیبر پختونخوا میں 349 ایکڑ، اور بلوچستان میں 347 ایکڑ پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔

اسی طرح مجموعی غیر قانونی قبضے کی صوبائی تفصیل کے مطابق پنجاب میں 5 ہزار 717 ایکڑ، سندھ میں 5 ہزار 590 ایکڑ، بلوچستان میں ایک ہزار 33 ایکڑ، اور خیبر پختونخوا میں 775 ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔

حنیف عباسی کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں پاکستان ریلوے نے پنجاب سے ایک ہزار 78 ایکڑ، سندھ سے 837 ایکڑ، بلوچستان سے 419 ایکڑ، اور خیبر پختونخوا سے 218 ایکڑ زمین واگزار کرائی۔

تاہم، جواب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی آر نے جہاں رہائشی، زرعی اور تجارتی قابضین سے کچھ زمین واپس حاصل کی ہے، وہیں گزشتہ 5 برسوں میں سرکاری/دفاعی اداروں سے ایک انچ زمین بھی واپس حاصل نہیں کی۔

پاکستان ریلوے نے ایک ہزار 594 ایکڑ زرعی زمین، 713 ایکڑ تجارتی زمین اور 268 ایکڑ رہائشی زمین واگزار کرائی ہے۔

وزیر ریلوے نے بتایا کہ گزشتہ 3 برسوں میں ریلوے انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر قابض زمین واگزار کروانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریلوے زمین پر سرکاری اداروں کے غیر مجاز قبضے کو ریلوے لینڈ پالیسی کے تحت لیز پر دے کر ریگولرائز کیا جا رہا ہے، تجارتی قبضے کو ریمیڈیل پالیسی کے تحت اپ فرنٹ پریمیم اور واجبات کی وصولی کے ساتھ لیز معاہدوں کے ذریعے جائز بنایا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئی بھی غیر قانونی قبضہ یا تجاوز قانون کے مطابق کارروائی کے تحت نمٹایا جاتا ہے، اور نئی تجاوزات روکنے کے لیے باقاعدہ اینٹی انکروچمنٹ آپریشنز جاری ہیں۔

2020 سے جون 2025 تک مجموعی طور پر 5 ہزار 182 تجاوزات کے کیس رپورٹ ہوئے، جن میں چالان کی شرح 99.58 فیصد اور سزا کی شرح 96.71 فیصد رہی۔

کل 5 ہزار 611 ملزمان میں سے 99.6 فیصد عام عوام سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سے تقریباً تمام گرفتار ہو چکے، صرف 20 ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ پی آر نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ایک جامع انسدادِ تجاوزات مہم شروع کی ہے۔

وزیر ریلوے نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ریلوے کی زمین پر کوئی نئی تجاوزات رپورٹ نہیں ہوئی۔

حنیف عباسی نے بتایا کہ پی آر نے پچھلے 3 مالی سالوں میں ریلوے کی زمین لیز اور لائسنس پر دے کر کل 13 ارب 90 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025