• KHI: Sunny 28°C
  • LHR: Partly Cloudy 22.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 22.2°C
  • KHI: Sunny 28°C
  • LHR: Partly Cloudy 22.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 22.2°C

لاہور: میو ہسپتال کے پروفیسر اور رجسٹرار کا جھگڑا، دونوں کو محکمہ صحت واپس بھیج دیا گیا

شائع August 6, 2025
دونوں میں پوسٹ گریجویٹ ٹرینی اور دیگر ڈاکٹرز کیلئے سخت نظم و ضبط نافذ کرنے پر اختلافات شروع ہوئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی
دونوں میں پوسٹ گریجویٹ ٹرینی اور دیگر ڈاکٹرز کیلئے سخت نظم و ضبط نافذ کرنے پر اختلافات شروع ہوئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور کے میو ہسپتال کے شعبہ امراض قلب کے ایک پروفیسر اور رجسٹرار کے درمیان تقریباً 3 ماہ جاری رہنے والا تنازع بالآخر دونوں کی اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں واپسی پر ختم ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں انسداد ہراسانی کمیٹی کی سفارشات پر امراض قلب کے پروفیسر ڈاکٹر عامر بندیشہ اور رجسٹرار ڈاکٹر شرجیل اکرم دونوں کو محکمہ صحت کے حوالے کیا گیا۔

ڈاکٹر عامر بندیشہ کو دسمبر 2024 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی/میو ہسپتال میں پروفیسر آف کارڈیالوجی تعینات کیا گیا تھا، جب کہ ڈاکٹر شرجیل اکرم میو ہسپتال میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) پنجاب کے چیئرمین کی حیثیت سے ایک اہم عہدہ سنبھالے ہوئے تھے۔

ان دونوں کے درمیان اختلافات اس وقت پیدا ہوئے جب پروفیسر عامر بندیشہ نے اپنے شعبے میں پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹروں اور دیگر ڈاکٹروں کے لیے سخت نظم و ضبط نافذ کیا، اور وائی ڈی اے پنجاب کے بینر تلے کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی پر مکمل پابندی عائد کر دی۔

صورتحال سے واقف ایک افسر نے بتایا کہ ڈاکٹر عامر بندیشہ، جو شعبہ امراض قلب کے سربراہ تھے، نے یہ واضح کیا تھا کہ اس حساس یونٹ میں ہڑتال یا احتجاج مریضوں کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

انہوں نے خاص طور پر احتجاج کے دوران ڈاکٹروں کی غیر حاضری کے حوالے سے تنبیہات بھی جاری کیں۔

3 ماہ قبل ڈاکٹر عامر نے اپنے یونٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر شرجیل کے خلاف پہلی شکایت درج کرائی، جس میں ان پر ڈیوٹی سے غیر حاضری اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔

یہ اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ دونوں کے درمیان ادارے میں جھڑپ بھی ہوئی اور معاملہ سوشل میڈیا تک جا پہنچا، جس سے تاریخی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی ساکھ متاثر ہوئی۔

یہ تنازع اس وقت مزید سنگین ہو گیا جب کچھ خواتین پی جی آرز نے پروفیسر ڈاکٹر عامر بندیشہ کے خلاف ہراسانی کی شکایت درج کروائی، جس پر پاکستانی میڈیکل کمیونٹی، خاص طور پر امریکا اور دیگر ممالک میں بحث چھڑ گئی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی سینئر فیکلٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔

رپورٹس کے مطابق ہسپتال میں دونوں فریق دن میں کئی بار ایک دوسرے سے الجھتے، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اور دھمکیاں دیتے رہے، جس سے دل کے مریضوں کو معیاری علاج فراہم کرنا ایک چیلنج بن چکا تھا۔

ادارے کی ساکھ کو بچانے کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیرسٹی کے وائس چانسلر نے معاملہ 2 مختلف کمیٹیوں کو انکوائری کے لیے بھیجا۔

انسداد ہراسانی کمیٹی (جس کی سربراہی پروفیسر ڈاکٹر نازش عمران کر رہی تھیں) کو پی جی آرز کی جانب سے پروفیسر عامر بندیشہ پر لگائے گئے ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات سونپی گئیں۔

اسی طرح ڈسپلنری کمیٹی (جس کی سربراہی پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد معین کر رہے تھے) نے ڈاکٹر شرجیل اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ڈاکٹر بندیشہ کے دفتر پر حملے اور نازیبا زبان کے استعمال کی تحقیقات کیں۔

کنگ میڈیکل ایڈورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایاز محمود نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ادارے میں جاری کشیدگی کے پیش نظر انہوں نے دونوں افراد کو اپنے دفتر بلا کر مسئلہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے بتایا کہ وقتی طور پر معاملہ حل ہو گیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد دونوں نے دوبارہ تصادم شروع کر دیا۔

ان کی باہمی شکایات کی تحقیقات کے بعد دونوں کمیٹیوں نے اپنی تفصیلی رپورٹس جمع کروائیں اور دونوں کو قصوروار قرار دیا۔

وائس چانسلر نے بتایا کہ یہ رپورٹس محکمہ صحت پنجاب کو بھجوائی گئیں اور دونوں افسران کو محکمہ صحت کے حوالے کر دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 17 دسمبر 2025
کارٹون : 16 دسمبر 2025