ہیروشیما حملے کے 80 سال: ’ہم اس دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ نہیں رہ سکتے‘
جون میں جاپان میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بڑے پیمانے پر ناراضی پائی جارہی تھی کہ جب امریکی صدر نے ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بم سے تشبیہ دی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’امریکی حملے نے جنگ کا خاتمہ کیا‘۔
ناگاساکی کے میئر نے شائستگی سے امریکی صدر کے بیان کو ’افسوسناک‘ قرار دیا۔ مماکی توشیوکی جوکہ 1945ء کے ایٹم بم حملے میں زندہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں اور Nihon Hidankyo نامی ایڈوکیسی گروپ کے شریک چیئرمین ہیں جسے گزشتہ سال امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا، نے ٹرمپ کے تبصرے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔ گروپ کے بہت سے اراکین ناراض تھے اور وہ لوگ جو اپنے بچپن میں اس تباہی کے شاہد رہے تھے، ہیروشیما میں ایک احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ سے اپنی بات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
اس کا کوئی امکان نہیں۔ بہت سے امریکیوں کی طرح ٹرمپ بھی اسی خیال کو سچ مانتے ہوئے پلے بڑھے ہیں کہ ان کی قوم نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ کیا تھا۔ انہیں شاذ و نادر ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ جاپان تو پہلے ہی ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار تھا۔
جاپانی فوجی رہنما بنیادی طور پر یہ چاہتے تھے کہ امریکا اس بات پر راضی ہوجائے کہ ان کا شہنشاہ اقتدار میں رہ سکتا ہے۔ امریکا نے غیرمشروط مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے پر اصرار کیا۔ تاہم اگست کے وسط میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی ہیروہیتو جوکہ ایک مشتبہ جنگی مجرم تھا، جاپان کے شہنشاہ کے عہدے پر فائز رہا۔
یہ تنازع اب بھی زیرِ بحث ہے کہ 80 سال قبل آج کی تاریخ کو ہیروشیما جبکہ تین روز بعد ناگاساکی پر ایٹم بم حملے کی، کیا فوجی نقطہ نظر سے واقعی ضرورت تھی؟ کیا جن حملوں میں مختصر مدت میں 2 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے (جبکہ آئندہ سالوں اور دہائیوں میں ایٹمی اثرات سے مزید اموات ہوئیں) تزویراتی تحفظات کی بنیاد پر درست تھا؟
آج یہ بات بڑے پیمانے پر (دنیا بھر میں نہیں) قبول کی جاتی ہے کہ دونوں شہروں پر گرائے گئے یورینیم اور پلوٹونیئم پیسیفک جنگ کے اختتام کے بجائے سرد جنگ کی ابتدا کا اعلان تھے۔
سوویت حملے کو روکنے کے لیے امریکا اور جاپان کے اپنے اپنے مفادات وابستہ تھے۔ اس حملے سے جاپان کا سامراجی نظام ختم ہوسکتا تھا جہاں شہنشاہ کو دیوتا کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے فوراً بعد اصل طاقت امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر کے ہاتھ میں تھی۔ 80 سال بعد بھی اوکی ناوا میں امریکا کا ایک فوجی اڈہ موجود ہے۔
نیو میکسیکو میں امریکا کے ٹرینیٹی ٹیسٹ کے محض 3 ہفتوں بعد ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم حملے درحقیقت سوویت کے لیے انتباہ تھے۔ جنرل ڈگلس میک آرتھر نے پھر دوبارہ کورین جنگ کے دوران ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر غور کیا لیکن 1949ء تک سوویت یونین نے مین ہیٹن پروجیکٹ میں سرایت کر جانے والے اپنے جاسوسوں کی مدد سے اپنا ایٹمی بم تیار کرلیا تھا۔ کچھ کے نزدیک یہ اچھا اقدام تھا کیونکہ اس سے طاقت کا توازن پیدا ہوا کہ اگر کوئی جوہری تصادم ہوتا ہے تو دونوں فریقین کو برابری کی سطح پر تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیوبا کے میزائل بحران کے دوران امریکا اور سوویت یونین تقریباً ایٹمی جنگ کے دہانے پر تھے لیکن عقلمند آوازوں نے اسے ہونے سے روکا۔ آج کے دور کی بات کی جائے تو دانشمندی وائٹ ہاؤس اور کریملن دونوں میں ہی اب دکھائی نہیں دیتی۔
ماسکو نے جوہری آبدوز تعینات کرنے کے ٹرمپ کے حالیہ اقدام کا پُرسکون انداز میں خیرمقدم کیا حالانکہ یوکرین میں روس کے اقدامات احمقانہ اور پسماندہ ہیں۔ ٹرمپ کے مندوب اسٹیو ویٹکوف کی آج ماسکو آمد سے بھی زیادہ توقعات نہیں ہیں کیونکہ دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان مستقبل قریب میں تصادم کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اب آگے کیا ہونے والا ہے، اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں نے مشترکہ طور پر جون میں ایٹمی طاقت کے خواہشمند ملک پر حملہ کیا۔ اس سے قبل افسوسناک طور پر برصغیر کی دو اقوام میں بھی تصادم ہوا جوکہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ان تنازعات کو ممکنہ طور پر اعلیٰ طاقتوں کی مداخلت سے روک دیا گیا تھا حالانکہ اب تک اس حوالے سے کچھ واضح نہیں ہے۔
آج دنیا کے بارے میں سب سے زیادہ پریشان کن پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے اب زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ سیارہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے جسے بہت سے رہنما نظر انداز کررہے ہیں۔
ٹرمپ کے اقدامات نے موسمیاتی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے اور یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ دنیا تباہی کی راہ پر گامزن ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ موسمیاتی آفات ہوں گی یا جوہری جنگ جو انسانیت کو ختم کریں گی لیکن یہ ان میں سے ایک ضرور اس میں کردار ادا کرے گی۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران ڈریسڈن پر کارپٹ بمباری اور ٹوکیو پر آگ کی گولہ باری گواہی دیتی ہیں کہ ایٹمی بم گرائے بغیر بھی بڑے پیمانے پر انسانوں اور املاک کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ کسی حد تک غزہ، ہیروشیما پر حملے کے دن اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کی روداد سناتا ہے جوکہ یاددہانی ہے کہ روایتی ہتھیار کس حد تک تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
لوگ غزہ میں غذائی قلت کا موازنہ دوسری جنگ عظیم میں لینن گراڈ کے محاصرے کے ساتھ بھی کر رہے ہیں۔ اس جنگ میں بہت سے دیگر لوگوں کی طرح جاپان میں بھی لوگ شدید بھوک کا شکار تھے۔
ہیروشیما اور ناگاساکی کے لیے امریکا کے ایٹمی تجربات ایسا خوفناک سانحہ تھا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ آج بھی ان حملوں میں زندہ بچ جانے والے افراد پُرعزم ہیں کہ ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔ ابھی تک جوہری ہتھیار دوبارہ استعمال نہیں کیے گئے ہیں حالانکہ امریکا نے کوریا اور ویتنام کی جنگوں کے دوران دھمکیاں دی تھیں۔ لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ ٹرمپ، پیوٹن اور مودی جیسے عالمی رہنماؤں کی موجودگی میں دوبارہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
ہوسکتا ہے کہ ہارورڈ کے ریاضی دان اور طنزیہ گیت لکھنے والے ٹام لہرر جو گزشتہ ماہ 97 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، ٹھیک تھے کہ جب انہوں نے 1950ء کی دہائی میں ہم سب کو بتایا تھا کہ ’جب ہم جائیں گے تو ہم سب ساتھ جائیں گے‘۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی