ٹرمپ کی میزبانی میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط
آذربائیجان اور آرمینیا کے رہنماؤں نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں تاریخی امن معاہدے پر دستخط کر دیے، جس کا مقصد دہائیوں پر محیط تنازع کو ختم کرنا ہے۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشینیان نے ہاتھ ملایا، امریکی صدر نے اس موقع کو ’تاریخی‘ قرار دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس معاہدے کے بارے میں بہت عرصے سے انتظار میں تھا، جو دونوں ممالک کے درمیان کچھ اہم ٹرانسپورٹ راستوں کو دوبارہ کھولے گا اور خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بڑھائے گا۔
آذربائیجان اور آرمینیا نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ناگورنو-کاراباخ کے مسئلے پر جنگ لڑی تھی، جو آذربائیجان کا نسلی طور پر آرمینیائی علاقہ ہے اور اس کے بعد کے برسوں میں بھی پرتشدد واقعات ہوتے رہے ہیں۔
جمعہ کو ٹرمپ نے کہا کہ آرمینیا اور آذربائیجان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے تمام لڑائی بند کر دیں گے اور سفر، کاروبار اور سفارتی تعلقات کھولیں گے۔
الہام علیوف نے کہا کہ آج ہم قفقاز میں امن قائم کر رہے ہیں، ہم نے جنگوں، قبضوں اور خونریزی میں مصروف رہتے ہوئے بہت سے سال ضائع کیے۔
نیکول پشینیان نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ 35 سال انہوں نے لڑائی کی اور اب وہ دوست ہیں اور طویل عرصے تک دوست رہیں گے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت امریکا ایک بڑا ٹرانزٹ کوریڈور بنانے میں بھی مدد کرے گا، جس کا نام ’ٹرمپ روٹ فار انٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپیرٹی‘ رکھا جائے گا۔
یہ راستہ آذربائیجان کو اس کے خودمختار نخچیوان انکلیو سے جوڑے گا، جو آرمینیائی علاقے سے الگ ہے، ماضی میں الہام علیوف نے مطالبہ کیا تھا کہ آرمینیا ان کے ملک کو نخچیوان تک ریلوے کوریڈور دے۔
آرمینیا چاہتا تھا کہ سڑک پر اس کا کنٹرول ہو اور آذربائیجانی رہنما نے ماضی میں دھمکی دی تھی کہ وہ یہ کوریڈور طاقت کے ذریعے لے گا، یہ مسئلہ پچھلے امن مذاکرات کو روک چکا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے دوران ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی تعریف کی، الہام علیوف نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے 6 ماہ میں ’کرشمہ‘ کر دکھایا۔
ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے دونوں ممالک کے ساتھ توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجارتی توسیع کے لیے دو طرفہ معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔
امریکی صدر نے اپنی دوسری مدت میں کئی متحارب ممالک کے درمیان امن معاہدے کرانے کی کوشش کی ہے۔
جمعہ کا یہ سربراہی اجلاس اس بات کی بھی علامت ہے کہ امریکا اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے اور روس کا اثر کم ہو رہا ہے، ایک صدی سے زائد عرصے تک کریملن یہاں طاقت اور امن کا ضامن رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے خود کو اس تنازع میں مرکزی ثالث کے طور پر پیش کیا تھا، علیوف اور پشینیان کے درمیان آخری معاہدہ پیوٹن کی ثالثی سے ہوا تھا۔
اب ٹرمپ کے ذریعے دونوں ممالک کو اکٹھا کرنے سے پیوٹن کو زیادہ تر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ماسکو نے امن مذاکرات میں اپنے مفادات شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن دونوں فریقین نے ان تجاویز کو چھوڑ کر امریکی حل کو ترجیح دی۔
جمعہ کے روز یہ اعلان اس سے کچھ دیر پہلے آیا، جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ اگلے ہفتے الاسکا میں پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا معاہدے کا خیر مقدم
وزیر اعظم شہباز شریف نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان وائٹ ہاؤس سمٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی سرپرستی میں تاریخی امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سنگِ میل ترقی جنوبی قفقاز میں امن، استحکام اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہے، ایک ایسا خطہ جو دہائیوں تک تنازعات اور انسانی المیوں کا شکار رہا ہے۔
انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’ہم صدر الہام علیوف اور آذربائیجان کے عوام کو اس تاریخی معاہدے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، جو ان کے خطے کے پُرامن مستقبل کے لیے دانشمندی، دور اندیشی اور بصیرت کا مظہر ہے‘۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ برادر ملک آذربائیجان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہم ان کی تاریخ کے اس فخر کے لمحے میں بھی ان کے ساتھ ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم امریکا کے کردار کو بھی سراہتے ہیں، جس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں دونوں فریقین کو ایک ساتھ بٹھایا اور ایسا معاہدہ ممکن بنایا جو تجارت، رابطوں اور علاقائی انضمام کے نئے راستے کھولتا ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ ہماری امید ہے کہ مکالمے کی یہ روح ان دیگر خطوں کے لیے بھی مثال بنے گی جو طویل تنازعات کا شکار ہیں۔












لائیو ٹی وی