پاکستان نے ’پلاسٹک کریڈٹس‘ کی خرید و فروخت کیلئے عالمی فنڈ کے قیام کا تصور پیش کردیا
جنیوا میں جاری پلاسٹ پولیوشن ٹریٹی (پلاسٹک آلودگی معاہدے) کے پانچویں اجلاس میں وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی ڈاکٹر مصدق ملک نے ’گلوبل پلاسٹک فنڈ‘ کے قیام کی تجویز پیش کی جسے متعدد مندوبین کی جانب سے سراہا گیا، اس مجوزہ فنڈز کے تحت پلاسٹک کریڈٹس کی خرید و فروخت کے لیے ایک عالمی مارکیٹ قائم کی جائے گی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ ’جب کافی ممالک اس پر متفق ہو جائیں گے تو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے سیکریٹریٹ کو اسے ایجنڈے میں شامل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا‘۔
انہوں نے معاہدے کے مسودے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ اس میں کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں جو یہ واضح کرے کہ آلودگی پھیلانے والے ممالک کس طرح ان ممالک کو معاوضہ دیں گے جو آلودگی کا شکار ہو رہے ہیں، انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹے جزیرہ نما ممالک کم پلاسٹک پیدا کرتے ہیں، لیکن دنیا کے دیگر حصوں سے بہہ کر آنے والا پلاسٹک ان کے ساحلوں تک پہنچ جاتا ہے۔
انہوں نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنا پلاسٹک کا کچرا ’پاکستان جیسے ممالک‘ کو برآمد کرنا بند کریں اور انہیں ’کچرے کے ڈھیر‘ کے طور پر استعمال نہ کریں۔
پلاسٹک سرکولر اکانومی میں سرمایہ کاری کے مواقع سے متعلق غیر رسمی وزارتی مکالمے میں ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ’جب میں گرین فنانسنگ کا جائزہ لیتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ وہی ممالک جو پلاسٹک استعمال کر رہے ہیں، گرین فنانسنگ بھی انہی کو مل رہی ہے‘، اور اس کا الزام بڑے پلاسٹک فٹ پرنٹ رکھنے والے ممالک پر ڈالا۔
شرکا سے بھرے ہوئے ہال سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ ناانصافی پائیدار نہیں ہوتی اور اگر ہم فطرت کے ساتھ ناانصافی کریں گے تو وہ پروا نہیں کرے گی، وہ بدلہ لے گی اور ہم سب متاثر ہوں گے۔
انہوں نے کوئلے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب ایک گلوبل ویلیج کے طور پر جڑے ہوئے ہیں، یا کم از کم میں ایسا ہی سمجھتا تھا، لیکن جب جغرافیائی و سیاسی حالات بدلے تو کچھ ممالک نے دوبارہ کوئلہ استعمال کرنا شروع کیا، جبکہ دیگر کو اس سے روک دیا گیا، یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ملک میں کوئلہ کالا اور دوسرے میں نارنجی ہو سکتا ہے جس پر پیلے رنگ کے دھبے ہوں، کبھی کبھار سادہ لوح ہونے کے ناطے میں دنیا کی جغرافیائی سیاست کو نہیں سمجھ پاتا، پلاسٹک آلودگی بھی حقیقتاً کچھ مختلف نہیں‘۔
انہوں نے ڈان سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے انہیں کہا کہ ہماری بات سنو، ہم بے آواز نہیں ہیں اور ہمیں زبردستی مت دباؤ‘۔
تنزلی کی دوڑ
184 ممالک کے مندوبین کی موجودگی میں ہونے والے اس 10 روزہ اجلاس کو 2015 کے پیرس معاہدے کے بعد سب سے اہم ماحولیاتی معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن اب تک ’پلاسٹک آلودگی‘ کی تعریف پر بھی اتفاق نہیں ہو سکا۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ’وہ صرف اس پر جھگڑ رہے ہیں کہ سیمی کولن کہاں لگے گا، متن میں بریکٹوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، حیرت نہیں کہ کچھ کام نہیں ہو رہا‘۔
وہ واحد ناقد نہیں تھے، یورپی یونین کی ماحولیاتی سربراہ جیسیکا روسوال نے کہا کہ ’سمندر میں موجود پلاسٹک سے زیادہ متن میں اسکوائر بریکٹ موجود ہیں‘۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے نظام کے طریقہ کار سے انتہائی مایوس ہیں، ’کیا لوگوں کی زندگیوں اور روزگار پر اثر انداز ہونے والے معاملات کو ایسے ہی نمٹایا جاتا ہے؟‘
جنیوا سے سینٹر فار انٹرنیشنل انوائرمینٹل لا (سی آئی ای ایل) کی ماحولیاتی صحت کی مہم چلانے والی راچل رادوانی نے ڈان کو بتایا کہ ’جو کوشش پلاسٹک بحران کے حل کے لیے ایک عالمی اقدام کی ہونی چاہیے تھی، وہ رکی ہوئی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے میدان میں ہوتا ہے، اس مسئلے کے ذمہ دار کم ترین ممالک ہی سب سے زیادہ پُرجوش ہو کر ایک مؤثر معاہدے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ پلاسٹک بنانے والے بدترین مقابلے میں مصروف ہیں، یہاں تک کہ کچھ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آیا یہ معاہدہ پلاسٹک سے متعلق ہے بھی یا نہیں‘۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ’تحریری بیانات اتنے گھسے پٹے اور بے جان تھے کہ کم از کم کہا جا سکتا ہے کہ سب ایک دوسرے سے اتفاق کرتے رہے کہ دنیا کو پلاسٹک کے کچرے کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، لیکن کوئی بھی حل پیش نہیں کیا گیا، یہ سب کچھ نہایت تھکا دینے والا تھا‘۔













لائیو ٹی وی