• KHI: Partly Cloudy 25.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.6°C
  • ISB: Rain 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 25.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.6°C
  • ISB: Rain 13.2°C

برطانیہ میں پاکستانی خواتین کو کمانے میں شدید مشکلات کا سامنا

شائع August 17, 2025
— فائل فوٹو: رائٹرز
— فائل فوٹو: رائٹرز

گریٹر لندن اتھارٹی (جی ایل اے) کی جانب سے جاری ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لندن میں مقیم پاکستانی خواتین اچھی تنخواہوں والی ملازمتیں حاصل کرنے میں تمام نسلی گروپوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں، حالانکہ ان کی تعلیم کی سطح بلند ہے۔

ڈان اخبار میں شائع تحقیقاتی رپورٹ بعنوان ’بنگلادیشی اینڈ پاکستانی ویمن ان گڈ ورک‘ میں کہا گیا ہے کہ ان برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو تعصب، ساختی عدم مساوات اور غیر لچکدار دفاتر کی وجہ سے بامعنی روزگار سے غیر متناسب طور پر محروم رکھا جا رہا ہے۔

اعداد و شمار ایک مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں، 2022 میں لندن میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی خواتین میں سے تقریباً نصف (48.1 فیصد) معاشی طور پر غیر فعال تھیں، جبکہ اسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے مردوں میں یہ شرح صرف 15.3 فیصد تھی، ان خواتین کی بے روزگاری کی شرح 16.9 فیصد تھی، جو مردوں کی شرح 5.5 فیصد سے تین گنا زیادہ ہے، سب سے تشویشناک پہلو جنس کی بنیاد پر تنخواہوں کا فرق ہے، لندن میں پاکستانی خواتین اوسطاً مردوں سے 60 فیصد کم کماتی ہیں، جو کسی بھی نسلی گروپ میں سب سے زیادہ فرق ہے۔

لندن کی نائب میئر برائے کمیونٹیز اور سماجی انصاف ڈاکٹر ڈیبی ویکس-برنارڈ نے ان نتائج کو ’حیران کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ناقابلِ قبول ہے کہ تجربہ کار پاکستانی اور بنگلہ دیشی خواتین کو اب بھی ترقی سے محروم رکھا جاتا ہے یا پھر انہیں انٹرویو حاصل کرنے کے لیے اپنے نام تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، یہ کہانیاں ان خواتین کی مزاحمت اور حوصلہ ظاہر کرتی ہیں، لیکن ساتھ ہی ان رکاوٹوں کو توڑنے کی فوری ضرورت کو بھی اجاگر کرتی ہیں جو انہیں پیچھے رکھتی ہیں‘۔

رپورٹ میں 32 خواتین کے انٹرویوز شامل ہیں جنہوں نے اپنی مایوسی لیکن ساتھ ہی اپنے عزم کا بھی اظہار کیا۔

خدیجہ نامی 30 سے 35 سالہ ایک برطانوی پاکستانی خاتون وکیل نے بتایا کہ انہیں قانونی پیشہ کورس کے اخراجات کے لیے کس مالی مشکل کا سامنا کرنا پڑا،’اب ایل پی سی کا خرچہ 14 ہزار پاؤنڈ ہے، میں نے اس کے لیے بڑی محنت سے پیسے جمع کیے، جب میں نے بتایا کہ میرے والد ٹیکسی ڈرائیور ہیں تو وہ بس مجھے حیرانی سے دیکھنے لگے، دوسروں کے لیے یہ آسان تھا کیونکہ ان کے والدین خرچ ادا کر دیتے تھے‘۔

ایک اور برطانوی بنگلہ دیشی کمیونٹی ورکر فرزانہ نے بتایا کہ ’گزشتہ سال ایک عہدہ خالی ہوا, میرے ساتھی کو نہیں دیا گیا حالانکہ اس کے پاس 10 سال سے زیادہ کا تجربہ تھا، اس کے بجائے انہوں نے ایک سفید فام خاتون کو یہ عہدہ دیا جو ٹیم کو سنبھال بھی نہیں سکیں، میری بنگلہ دیشی ساتھی اب بھی سب کچھ کرتی ہے‘۔

2 سال قبل برطانیہ منتقل ہونے والی پاکستانی ٹیچر آمنہ نے بتایا کہ ’میں ایک انٹرویو کے لیے گئی اور انہوں نے کہا کہ میرا لہجہ طلبہ کو کنفیوز کرے گا، انہوں نے کہا کہ ہمارے لہجے میل نہیں کھا رہے‘۔

ایک اور بڑی رکاوٹ مسلمانوں کی شناخت پر مبنی امتیاز ہے، بنگلہ دیشی رضاکار محمودہ نے کہا کہ ’جب ہم حجاب پہنتے ہیں تو اکثر وہ ہمیں مختلف طریقے سے دیکھتے ہیں، جیسے سوچتے ہوں کہ کیا یہ واقعی کام کر سکتی ہے؟ کیا یہ بول بھی سکتی ہے؟“

خاندانی ذمے داریوں اور کیریئر کو متوازن رکھنا بھی ایک بھاری بوجھ ہے، سستی نرسری اور ڈے کیئر ایک اہم مطالبہ بن کر ابھری، برطانوی بنگلہ دیشی ایڈمنسٹریٹر زینب نے کہا کہ ’اگر میں اپنے بچوں کو ڈے کیئر میں ڈال دوں تاکہ زیادہ دیر کام کر سکوں تو میری زیادہ تر تنخواہ وہیں خرچ ہو جائے گی, یہ ممکن نہیں‘۔

ان رکاوٹوں کے باوجود کئی خواتین نے عزم کا مظاہرہ کیا، پاکستانی پالیسی مینیجر انیسہ نے کہا کہ انہیں موقع صرف ایک ڈائیورسٹی انٹرنشپ کی وجہ سے ملاورنہ میں یہاں نہ ہوتی، یہ میدان بہت سفید فام اور اشرافیہ زدہ ہے۔“

رپورٹ میں فوری اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے، جس میں بلیائنڈ ریکروٹمنٹ، بیرونِ ملک کی ڈگریوں کو تسلیم کرنا، سستی ڈے کیئر، اور پاکستانی و بنگلہ دیشی خواتین کے لیے ترقیاتی پروگرام شامل ہے۔

ڈاکٹر ویکس-برنارڈ نے زور دیا کہ ’معاشی ترقی اور عدم مساوات میں کمی ساتھ ساتھ چلنی چاہیے تاکہ کوئی برادری پیچھے نہ رہ جائے،کاروباری رہنما، مقامی حکام اور سٹی ہال کو چاہیے کہ وہ ایسے جامع دفاتر بنائیں جو لندن کی تنوع کی عکاسی کریں‘۔

پاکستانی خواتین کی گواہیاں ان چیلنجز کی گہرائی ظاہر کرتی ہیں، جیسا کہ ایک شریک خاتون نے کہا کہ ’ہم اہل ہیں، ہم قابل ہیں، لیکن ہم اعلیٰ عہدوں پر نظر ہی نہیں آتیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لیے شیشے کی چھت اور بھی موٹی ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025