اداریہ: نکاسی آب کے مناسب نظام سے محروم، مفلوج شہرِ کراچی

شائع August 21, 2025
—تصویر: اے ایف پی
—تصویر: اے ایف پی

مون سون ایک بار پھر کراچی کے لیے موت اور مصائب کے علاوہ کچھ نہیں لایا ہے جہاں منگل کو ہونے والی ’غیرمعمولی‘ بارش نے اس بدقسمت شہر کو مفلوج کردیا ہے۔

بارشوں سے تباہی کے واقعات ملک کے دیگر حصوں جیسے خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں بھی دیکھنے میں آئے ہیں جہاں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔ لیکن کراچی میں اربن فلڈنگ کا مسئلہ اپنے آپ میں کئی حوالوں سے منفرد ہے جو خراب منصوبہ بندی اور غیر منظم ترقی کی وجہ سے بڑھا ہے۔

میئر نے اس تباہی کی وجہ ’موسمیاتی تبدیلی‘ کو قرار دیا ہے۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی، غیرمعمولی موسمیاتی خرابی اور گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہے لیکن اسے کراچی کی حالت زار کا کلیدی مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہر سال مون سون کے بادل آتے ہی ہمیں شہر میں یہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔

سیلاب سے بھری سڑکیں، گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے ہوئے لوگ اور گھٹن زدہ موسم میں طویل عرصے تک بجلی کی بندش، منگل کے اسپیل کے کچھ نتائج تھے۔ یقیناً اس بار شہر کے بہت سے حصوں میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن اس سے قبل بھی نسبتاً کم بارشوں نے بھی شہری زندگی کے پہیے کو جام کیا۔

موٹر سائیکل اور کار سوار لوگوں کو گہرے پانی میں پھنسے اور بارش کا پانی گھروں اور اپارٹمنٹ کی عمارتوں میں داخل ہوتے مناظر ظاہر کرتے ہیں کہ شہر کے نکاسی آب کے نظام میں سنگین خرابی ہے۔ اور مسئلہ حل کرنے کی کچھ کوششوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر پوش علاقے ڈی ایچ اے میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی لاگت سے نکاسی کا نظام نصب کیا گیا تھا لیکن پھر بھی یہ علاقے کو شہری سیلاب کی صورت حال سے بچانے میں ناکام رہا۔ ڈی ایچ اے شہری اداروں کے دائرہ اختیار سے باہر، کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر کنٹرول ہے۔ کم آمدنی والے، نشیبی علاقوں کے باسی بھی اسی طرح متاثر ہوئے۔

سپریم کورٹ اور آزاد شہری ماہرین سے لے کر سوشل میڈیا پر اظہارِ برہمی کرتے لوگوں تک، سب ہی نے اس حقیقت پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ کراچی میں مناسب نکاسی آب کا نظام نہیں ہے اور یہ کہ مون سون سے متعلق تباہی ہر سال کا معمول بن چکی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے حل طلب ہے اور اس کا الزام صرف موجودہ حکومت کو ٹھہرانا ناانصافی ہوگی۔ یکے بعد دیگرے آنے والی انتظامیہ نے کراچی کو نظرانداز کیا ہے یا شاذو نادر اس کے شہری مسائل پر لب کشائی کی ہے کیونکہ تجاوزات اور زمین پر قبضہ کرنے والوں نے اس کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔

کراچی کے شہری مسائل بشمول ناقص نکاسی آب پیچیدہ ہیں اور کئی دہائیوں سے نظر انداز کیے جانے کو ہفتوں یا مہینوں میں دور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن شروعات شہر کے اہم مسائل، بنیادی طور پر ٹھوس فضلہ کو ٹھکانے لگانے، پانی کی فراہمی، کام کرنے والا سیوریج سسٹم، زمین کا منصفانہ انتظام وغیرہ سے ہونی چاہیے جوکہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ شہر کے منتظمین اور آزاد ماہرین کو یہ مسائل حل کرنا چاہئیں۔

اس کے علاوہ ایک بہتر بلدیاتی نظام جو مقامی مسائل کا فوری حل کرے اور لوگوں کو جوابدہ ہو، کراچی کی شہریوں کی پریشانیوں کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کیونکہ کراچی میں زمین کو کنٹرول کرنے والے متعدد ادارے بھی شہری نظم و نسق کو پیچیدہ بناتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
اداریہ

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025