اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنا ’بیک اپ‘ پلان، ترجیح عمر ایوب، شبلی کو واپس لانا ہے، پی ٹی آئی
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور سینیٹر اعظم سواتی کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی کے گرد پیدا ہونے والے تنازع کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ تقرریاں صرف اسی صورت میں آگے بڑھیں گی، اگر سابق رہنما عمر ایوب اور شبلی فراز پارلیمنٹ سے باہر رہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ تمام قانونی راستے اختیار کرے گی، تاکہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف شبلی فراز کی نااہلی کو ختم کرایا جا سکے، جنہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 9 مئی کے مقدمات میں سنائی گئی سزاؤں کی روشنی میں نااہل قرار دیا تھا۔
اسی تناظر میں، بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اس ہفتے کے آغاز میں محمود اچکزئی (جو پی ٹی آئی کی قیادت میں بننے والے اپوزیشن اتحاد ’تحریک تحفظ آئینِ پاکستان‘ کے سربراہ بھی ہیں) اور سینیٹر اعظم سواتی کو ان اہم عہدوں کے لیے نامزد کیا تھا، تاہم اس فیصلے نے پارٹی کے اندر کئی افراد کو ناراض کیا اور یہ بحث چھڑ گئی کہ آخر ایک ’باہر سے آنے والے‘ کو پی ٹی آئی کی اکثریت رکھنے والی اپوزیشن کی قیادت کیوں سونپی جا رہی ہے۔
ان خدشات کو دور کرنے کے لیے بظاہر کیے گئے ایک اقدام میں پارٹی کے اندرونی ذرائع نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ اصل ترجیح سابق اپوزیشن رہنماؤں عمر ایوب اور شبلی فراز کی واپسی ہے۔
دوسری طرف عمر ایوب نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ نئی تقرری صرف اسی وقت حتمی ہوگی، جب تمام قانونی راستے اختیار کر لیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ محمود اچکزئی ایک سینئر رہنما ہیں اور اپوزیشن اتحاد کے بھی سربراہ ہیں، یہ پارٹی کے بانی عمران خان کا استحقاق ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو اپوزیشن لیڈر کے امیدوار کے طور پر نامزد کریں، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ کی نامزدگی اپوزیشن اتحاد کو مضبوط کرے گی۔
سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ سلمان اکرم راجا پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ان کی نااہلی ختم کرانے کے لیے تمام قانونی پلیٹ فارمز استعمال کیے جائیں گے، لیکن اگر حکومت نئے اپوزیشن رہنماؤں کے نام مانگتی ہے، تو اس صورت میں یہ نام اسپیکر کو بھیجے جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگرچہ دونوں ناموں کا اعلان کر دیا گیا ہے، لیکن پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکا نے عمران خان سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات طلب کیں۔
علی بخاری نے اجلاس کو بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ تمام قانونی پلیٹ فارمز استعمال کیے جائیں اور اس کے بعد محمود اچکزئی اور اعظم سواتی کے نام دیے جا سکتے ہیں، انہوں نے وضاحت کی کہ عمران خان نے یہ نام اس لیے تجویز کیے، کیوں کہ انہیں خدشہ تھا کہ اپوزیشن رہنماؤں کی نامزدگی تک شاید انہیں پارٹی رہنماؤں، اپنی بہنوں یا وکلا سے ملنے کا موقع نہ ملے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ عمر ایوب اور شبلی فراز دونوں نے عدالتوں سے اسٹے آرڈر حاصل کر لیے ہیں، محمود اچکزئی کو پی ٹی آئی نے صدارتی امیدوار کے طور پر بھی سپورٹ کیا تھا، عمران خان چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تمام آوازیں متحد ہوں، ماضی میں بھی ہم اسی خیال کے تحت مولانا فضل الرحمٰن کے پاس گئے اور ان کے گھر کئی بار ملاقات کی۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے آپشن کے طور پر محمود اچکزئی کو نامزد کیا گیا ہے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ کا نام اس لیے بھی تجویز کیا گیا، کیوں کہ عمران خان بلوچستان کی سیاسی شخصیات کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محمود اچکزئی ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں جو تحریک کی قیادت کر سکتے ہیں، تاہم، میں پھر یہی کہوں گا کہ پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ عمر ایوب اور شبلی فراز کو دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈرز کے طور پر واپس لایا جائے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ محمود خان اچکزئی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک کہنہ مشق سیاستدان ہیں، جو بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے دو ٹوک مؤقف کے لیے مشہور ہیں۔
پی ٹی آئی کے پرانے رہنما اعظم سواتی 2013 کے انتخابات سے قبل پارٹی میں شامل ہوئے تھے، چند سال قبل جیل گئے تھے اور انہیں مبینہ طور پر اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے خلاف ٹویٹ کرنے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔













لائیو ٹی وی