• KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 25.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.3°C
  • ISB: Rain 15.6°C

غیر قانونی فاریکس مارکیٹ سے زرِمبادلہ کی شرح استحکام متاثر ہونے کا خدشہ

شائع August 24, 2025
—فائل فوٹو: ڈان
—فائل فوٹو: ڈان

بینکاری مارکیٹ میں کرنسی ڈیلرز نے اطلاع دی ہے کہ اس ماہ منی چینجرز کی جانب سے ڈالر کی فروخت میں 50 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس کی وجہ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گرے مارکیٹ دوبارہ فعال ہو گئی ہے، جہاں ڈالر زیادہ قیمت پر خریدا جا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈیلرز نے بتایا کہ ترسیلات زر کے حجم پر کوئی اثر نہیں پڑا، جولائی میں 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کی ترسیلات ہوئیں، لیکن اوپن مارکیٹ میں فروخت میں کمی سے ایکسچینج ریٹ غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔

منی چینجرز کے مطابق ڈالر کی خریداری کے لیے سخت دستاویزی تقاضے فروخت کو محدود کر رہے ہیں، جب کہ صرف 500 ڈالر تک کے لین دین پر سوال نہیں اٹھایا جاتا، بینکاروں کے مطابق اس ماہ اوپن مارکیٹ نے بینکاری شعبے کو تقریباً 11 کروڑ 50 لاکھ ڈالر فروخت کیے ہیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہیں۔

ایک منی چینجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی کمی ہے، وہ صرف وہی ڈالر بیچ رہے ہیں جو عوام سے وصول ہوتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی اور پہلے ڈالر خرید کر منی چینجرز کو فروخت کر رہا ہے۔

اگرچہ اس سال فروخت میں اضافہ ممکن ہے، لیکن منی چینجرز کا اندازہ ہے کہ اگست میں فروخت 20 کروڑ ڈالر سے تجاوز نہیں کرے گی، موازنہ کیا جائے تو مالی سال 25 میں منی چینجرز کی اوسط ماہانہ فروخت 35 کروڑ ڈالر رہی ہے، جب کہ مالی سال 26 کے جولائی میں 30 کروڑ ڈالر کی فروخت بینکاری مارکیٹ میں ہوئی۔

منی چینجرز نے اس ماہ ڈالر کی فروخت میں 50 فیصد کمی کی اطلاع دی ہے، اور وہ بڑے شہروں میں غیر قانونی مارکیٹوں کی دوبارہ سرگرمیوں پر بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، جہاں ایکسچینج ریٹ مقرر نہیں ہے اور 287 سے 292 روپے تک ہے۔

اس صورتحال نے انفرادی بیچنے والوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے خریداروں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے، جو ٹیوشن فیس یا بیرون ملک علاج کے لیے ڈالر خریدتے ہیں، زیادہ ریٹ کے باوجود ان جائز ضروریات کے لیے ڈالر حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

اسمگلروں اور غیر قانونی آپریٹرز کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں گر رہی ہے، آپریشن کے آغاز سے اب تک ڈالر اوپن مارکیٹ میں 4 روپے کم ہو کر 22 جولائی کو 288.50 روپے سے موجودہ 284.50 روپے پر آ گیا ہے۔

بینکاروں نے تصدیق کی کہ اوپن مارکیٹ میں فروخت میں کمی کا حکومت کی جانب سے بینکوں اور منی چینجرز کے لیے مراعات میں تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جولائی میں ترسیلات زر مضبوط رہیں، تاہم قیمتوں پر قابو پانے سے غیر قانونی مارکیٹ کے کھلاڑیوں کو زیادہ ریٹ دے کر فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے، جو ایکسچینج ریٹ کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

اگرچہ حکومت نے ڈالر کی قدر کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ اقدامات مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے، کریک ڈاؤن کے باوجود ڈالر کی قیمت اوپن اور انٹربینک دونوں مارکیٹوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، ترسیلات زر جاری رہیں اور امریکا و چین کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے تو مارکیٹ مستحکم ہو سکتی ہے۔

ماہرین نے تجویز دی کہ اسٹیٹ بینک کو مارکیٹ میں لیکویڈیٹی اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے مالی سال 25 کی طرح بڑے پیمانے پر ڈالر کی خریداری سے گریز کرنا چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025