تباہ کُن مون سون: ’ہم اپنی کچھ کوتاہیاں تسلیم کرنے سے قاصر ہیں‘

شائع August 27, 2025

رواں سال مون سون جلدی آگیا لیکن یہ غیر متوقع ہرگز نہیں تھا۔

وہ لوگ جو ہمیں متنبہ کررہے تھے کہ اس سال گرمی کی شدت غیر معمولی ہونے والی ہے، انہی نے ہمیں اس حوالے سے بھی خبردار کیا تھا کہ ملک میں بارشوں کا موسم جلد آئے گا جو کہ شدید ہوگا۔ اس کے باوجود ملک سیاست کے معمول کے جھمیلوں میں الجھا رہا۔

پھر یہ تعجب کی بات نہیں کہ پہاڑوں، میدانی علاقوں اور شہروں میں بارشوں کی شدت نے ہم میں سے بیشتر کو ششدر کردیا، چاہے وہ علاقے جن کے بارے میں ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اچھی طرح سے منظم ہیں یا وہ جہاں حکمرانی کا بحران اس حد تک شدید ہے کہ ہم اس پر بلا توقف بحث کرتے رہتے ہیں۔

سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اس بات کے بہت کم شواہد موجود ہیں کہ کوئی بھی حکومت خواہ صوبائی ہو یا وفاقی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار تھی۔ درحقیقت بہت سے مقامات پر جب فطرت بےقابو ہوجاتی ہے تو اقتدار میں موجود لوگوں کے ناقص فیصلے مزید تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

ان کوتاہیوں کو اب تک دور نہیں کیا جاسکا ہے حالانکہ 2022ء کے تباہ کُن سیلاب کو گزرے تین برس بیت چکے ہیں۔ اس سیلاب نے جو تباہی مچائی، اسے ہمیں اپنی روش بدلنے پر قائل کر دینا چاہیے تھا لیکن لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔

بارشیں، ان کا رجحان، بڑھتا درجہ حرارت، حتیٰ کہ موسمِ سرما میں فضائی آلودگی کے بارے میں سب خبردار کرتے ہیں کہ بالخصوص یہ عوامل ہمارے پہاڑوں اور گلیشیئرز کو کس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومت تو جنگلات کو کاٹنے والے کلہاڑی بردار گروہوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے یا ان کی کارروائیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ معاملے پر گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق، شمالی علاقہ جات میں ہونے والی تباہی کا براہِ راست تعلق جنگلات کاٹنے کی بڑھتی ہوئی شرح سے ہے۔

سیلاب سے تباہ کاریوں کے بعد بھی اس بات پر زیادہ بحث نہیں ہوتی کہ ہمیں کیا تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے اقدامات سے لے کر اس معاملے پر ہونے والی زیادہ تر رپورٹنگ تک، یہ سمجھنے کی بہت کم کوشش کی جاتی ہے کہ آخر ہوا کیا ہے۔ اگر سوشل میڈیا پر فوٹیجز نہ ہوتیں تو مجھے شک ہے کہ ہم میں سے اکثر کو یہ تک معلوم نہ ہوتا کہ آفات سے کس حد تک نقصانات ہوئے ہیں۔

درحقیقت ہماری خبروں اور بات چیت کا محور زیادہ تر ٹیکنالوجی کی کمی پر مرکوز ہوتا ہے جیسے ابتدائی وارننگ سسٹم جو بیوروکریسی کے سرخ فیتے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ اس قسم کے موضوع شمالی علاقہ جات میں درختوں کی کٹائی کے معاملے سے زیادہ ہماری توجہ حاصل کرتے ہیں۔

لیکن اگر میں یہ کہوں کہ واحد یہی موضوع ترجیح ہے تو میں غلط ہوں گی۔ تجاوزات ہمارا ایک اور پسندیدہ موضوع ہے۔ 2010ء کے سیلاب کے بعد سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے کہ جہاں دریاؤں کے کنارے بنی تجاوزات پر بات کی جاتی ہے لیکن نہ لوگ جو بار بار تجاوزات کی تعمیرِ نو کے لیے ادائیگی کرتے ہیں اور نہ ہی حکومت جسے لوگوں کی بحالی میں مدد کرنی پڑتی ہے، اپنی پالیسیوں یا انتظامی معاملات میں تبدیلی لے کر آئے ہیں۔ آئندہ سیلابوں میں بھی دریا کنارے ہوٹلز یونہی موجود ہوں گے۔

بدقسمتی سے وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ صرف اس پر بات ہی کرتے ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے اپنے حالیہ دورے کے دوران شہباز شریف کی جانب سے دیا گیا بیان بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

اگر میں اندازہ لگاؤں تو تجاوزات اور ان کا خاتمہ ہماری حکمران اشرافیہ کے بیشتر افراد کے لیے ایک آسان موضوع ہے، چاہے وہ کسی بھی جماعت یا صوبے سے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اسے ’گڈ گورننس‘ کے تصور سے جوڑتے ہیں جیسے کاروں کے لیے چوڑی سڑکیں بنانا یا کار انڈسٹری کے لیے جگہ بنانا یا شاید وہ صرف خستہ حال عمارتوں یا گلیوں میں چلنے والی ریڑھیوں کو پسند نہیں کرتے جو غریب لوگ چلاتے ہیں۔ چونکہ غریب کے خلاف کارروائی کرنا آسان ہوتا ہے، اس لیے وہ آسانی سے تجاوزات کا خاتمہ کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔

تجاوزات کا تصور پیچیدہ ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امیر لوگ زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم شاذ و نادر ہی قیمتی زرعی زمینوں پر تعمیر ہونے والی فینسی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو تجاوزات کہتے ہیں یا ان مہنگے مکانات کا ذکر کرتے ہیں جو پانی کے راستوں کو روک کر یا دریا کے کنارے تبدیل کرکے بنائے گئے ہیں۔

تقریباً ہر سال ہی اسلام آباد میں بارش کے پانی کی وجہ سے ان علاقوں میں سیلاب آجاتا ہے جہاں پانی کا راستہ روک کر یا اسے تنگ کرکے تعمیرات کی گئی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہمارے لیے تجاوزات کا موضوع شمالی علاقوں میں دریا کنارے بنے پرانے ہوٹلز کے گرد ہی گھومتا ہے یا غریب آدمی کی ریڑھی یا ان پسماندہ بستیوں پر بات کی جاتی ہے جن میں تارکینِ وطن رہتے ہیں۔ چاہے یہ ماحولیات کے بارے میں ہو یا حفاظت کے بارے میں، صرف مخصوص قسم کی ’تجاوزات‘ سے نمٹا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس بات کو قبول نہیں کرنا چاہتا کہ اس ماحولیاتی تباہی کی ایک بڑی وجہ ہمارا ترقیاتی ماڈل ہے، چاہے وہ شہروں کا ہو یا پہاڑی علاقوں کا۔

ہماری سوچ یا ترقیاتی ماڈل یہ ہے کہ تعمیرات کا مطلب ترقی ہے۔ چاہے وہ شمالی علاقہ جات میں ہوٹلز ہوں یا بڑے بڑے ہائی وے جنکشنز، شہروں میں چوڑی سڑکیں یا شہروں کے کناروں پر بڑے رہائشی علاقے، ہم تعمیرات کو ہی ترقی سمجھتے ہیں۔ کراچی کے علاوہ پاکستان کا کوئی بھی شہر اونچی عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی نہیں کررہا۔ اس کے بجائے، ڈیولپرز کو درختوں کی کٹائی، زرعی زمینوں پر قبضہ کرنا اور وہاں مکان بنانا آسان لگتا ہے۔

بلاشبہ اس سب کا تعلق پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے بھی ہے لیکن یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنے کی ہم کبھی زحمت ہی نہیں کرسکتے۔

اس تمام رونے دھونے یا شکایات سے معمول کے قارئین (اگر کوئی ہیں تو) واقف ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس پر دوبارہ بات نہ کرنا مشکل ہے کیونکہ ماحولیاتی بحران ہر گزرتے موسم اور ہر گزرتے سال بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ پھر بھی یہ قدرے پُرامید پیش رفت ہے کہ تین سال پہلے کے برعکس، ہمارے رہنما صرف موسمیاتی انصاف کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ مسائل کو حل کرنے کے لیے دنیا سے پیسے مانگ رہے ہیں۔

صرف وقت ہی بتائے گا کہ کیا اس خاموشی کا مطلب ہے کہ ہمارے رہنما حقیقی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ ایک ایسی ذمہ داری جو صرف وعدہ کرنے اور معاوضے کے طور پر کچھ رقم دینے کے اعلان سے بالاتر ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
عارفہ نور

لکھاری صحافی اور ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ‘نیوز وائز’ کی میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025