• KHI: Partly Cloudy 26.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.2°C
  • ISB: Rain 15.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.2°C
  • ISB: Rain 15.1°C

غزہ میں قحط: ’آپ کے مذمتی الفاظ بھوکے بچوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے‘

شائع August 28, 2025

کئی زمانوں سے قحط ایک ایسا لفظ رہا ہے جس سے لوگ خوف کھاتے رہے ہیں۔ لیکن اب اسرائیل نے اسے اپنی ریاستی پالیسی بنا لیا ہے جوکہ اپنے دفاع سے قاصر مظلوم فلسطینیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہورہا ہے۔

بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ بنیامن نیتن یاہو کے دادا ربی تھے جبکہ ان کے والد نے اس وقت کے برطانیہ کے زیرِانتظام فلسطین میں ہجرت کرکے اپنا خاندانی نام میلیکوسکی سے بدل کر نیتن یاہو رکھا جس کا مطلب ہے ’خدا کا دیا ہوا‘۔

بہت سے لوگ یہ بات بھی نہیں جانتے کہ بنیامن نیتن یاہو 1984ء سے 1988ء تک اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مندوب تعینات رہ چکے ہیں۔ اپنی تعیناتی کے سالوں میں دور اندیش نیتن یاہو نے فریڈ ٹرمپ سے دوستی کی جوکہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے والد تھے۔ جیسا کہ مصنفہ اگاتھا کرسٹی نے ایک بار کہا تھا، ’پرانے گناہوں کے سائے طویل مدتی ہوتے ہیں‘۔ یعنی ماضی کے اعمال دیرپا اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

یہودیت، مسیحیت اور اسلام کی مقدس کتب میں بےشمار واقعات کا ذکر ہے کہ جن میں قوموں نے قحط سے بچنے کے لیے ہجرت کی۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مصر کی جانب ہجرت کی اور بعدازاں ان کے بیٹے حضرت اسحٰق علیہ السلام نے فلسطینی سرزمین کی جانب ہجرت کی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنے والے وقت کے حوالے سے پیش گوئی کی تھی کہ ’قومیں اور سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوں گی اور قحط پڑیں گے‘۔ جبکہ قرآن مجید نے بھی ہمیں ’بھوک، مالی، جانی اور پھلوں کے نقصان‘ کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔

تاریخی اعتبار سے قحط کو آسمانی عذاب، قدرتی آفات یا انسانوں کی پیدا کردہ مصیبت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ شاید اس حوالے سے سب سے بدنامِ زمانہ قحط جنگِ عظیم دوم کے دوران 1944-1943ء میں بنگال میں پڑا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے اس وقت کی برطانوی نوآبادیاتی خطے کے لیے زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ اس خطے نے جنگ میں برطانیہ کی حمایت کی تھی لیکن اس کے باوجود بنگال کے لوگوں کو خوراک کی فراہمی سے انکار کیا گیا۔

بہت سے برطانوی شہریوں کی طرح ونسٹن چرچل بھی ہندوستانیوں (وہ نہرو کو پسند کرتے تھے) کی تعریف کرتے تھے لیکن ہندوستان سے نفرت کرتے تھے۔ بقول چرچل، ’وہ حیوانیت والا مذہب رکھنے والے حیوان لوگ ہیں۔ جب خرگوشوں کی طرح شرحِ پیدائش ہوگی تو قحط پڑنا ان کی اپنی غلطی ہے‘۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک طنزیہ تبصرہ بھی کیا تھا کہ اگر خوراک کی قلت ہے تو مہاتما گاندھی (جنہیں وہ ’نیم برہنہ فقیر‘ قرار دیتے تھے) کیسے ابھی تک زندہ ہیں؟

تقسیمِ ہند کے بعد سے ممکنہ قحط کی صورت حال نے پاکستان کی تمام حکومتوں کو پریشان کیا۔ وسطی پنجاب جو 1947ء سے پہلے ہندوستان میں اناج پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ تھا، میں بدانتظامی نے ہمارے ملک کو امریکا اور اس کے پی ایل 480 پروگرام پر انحصار کرنے پر مجبور کیا۔ اس پروگرام نے پاکستان کی مدد تو کی لیکن ساتھ ہی ملک کو بڑے پیمانے پر امریکا پر منحصر کیا۔

پی ایل 480 کے تحت امداد 1954ء سے 1991ء تک جاری رہی۔ یہ اس وجہ سے معطل نہیں ہوا کہ پاکستان اناج کی پیداوار میں خودمختار ہوگیا تھا بلکہ اس کی معطلی پاکستان کے جوہری پروگرام کا نتیجہ تھی۔ اس حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بیان انتہائی مشہور ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا، ’ہم (پاکستانی) گھاس کھائیں گے لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘۔

اگر وزیراعظم نریندر مودی سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر یونہی مصر رہے تو گھاس کھانے کے لیے مویشیوں سے لڑنے کی نوبت آجائے گی۔

1960ء کی دہائی کے اوائل میں بھارت میں ایک سبز انقلاب آیا جس کی قیادت ایک زرعی سائنسدان ایم ایس سوامیناتھن نے کی۔ وہ اور ان کی ٹیم نے ٹیکنالوجی، میکانائزیشن اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کا استعمال کیا۔ اسی طرح دیہات کو سڑک کے ذریعے شہروں سے جوڑا گیا، بجلی سے کسانوں کے کام کے اوقات میں اضافہ ہوا اور سب سے بڑھ کر کسانوں کو زرعی یونیورسٹیز سے سیکھنے کی ترغیب دی گئی۔

1970ء تک بھارتی پنجاب جسے ریڈکلف ایوارڈ کے ذریعے زرعی زمین کا صرف 30 فیصد حصہ ملا تھا، بھارت کی کُل اناج کا 70 فیصد پیدا کرنے لگا۔

آج کی دنیا میں قحط قدرت کی آفت نہیں۔ جدید دور میں قحط انسانی ناکامی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ 19ویں صدی کے برطانوی ایڈمنسٹریٹر چارلس ٹریولین جنہوں نے 1845ء سے 1852ء کے آئرش پوٹاٹو قحط کا مشاہدہ کیا جس میں 10 لاکھ افراد ہلاک اور 20 لاکھ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، نے دلیل دی کہ قحط کسی وجودی برائی کی وجہ سے نہیں بلکہ ’لوگوں کی خودغرضی، اخلاقی ناکامی اور پیچیدہ کردار‘ کا نتیجہ ہے۔

وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں سے اس بات کی بہت کم توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ چارلس ٹریولین سے اتفاق کریں۔ وہ ایک منصوبہ بندی کے تحت نسل کشی (گیس چیمبرز کے بغیر قتلِ عام) کررہے ہیں جوکہ انسانی یادداشت میں ہولوکاسٹ کی جگہ لے گی۔

غزہ میں تو خوراک کے حصول کے انتظار میں قطار میں کھڑے فلسطینی بھی شہید ہورہے ہیں۔ وہ اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ اپنے پیدائشی حقوق، اپنی زمین بھی کھو رہے ہیں۔

اس کا مقصد جرأت مندی سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف بولنے والی حکومتوں، اقوام متحدہ اور اس کی مختلف امدادی ایجنسیز کی کوششوں کو بدنام کرنا نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے جو کچھ کیا ہے، وہ بہت کم اور بہت تاخیر سے کیا ہے جوکہ ناکافی ہے۔ ان کے الفاظ چاہے کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں، یہ الفاظ بھوکے بچوں کے پیٹ نہیں بھر سکتے۔ وہ کم عمر فلسطینی جو ’تخفیف‘ کا مطلب بھی نہیں سمجھ سکتے، ان کے لیے موت ایک مایوس کُن حقیقت بن چکی ہے۔

قارئین کو شاید 1972ء میں ویتنام جنگ کے دوران لی گئی ایک تصویر یاد ہو۔ اس میں ایک 9 سالہ بچی کو دکھایا گیا تھا جو اپنے گاؤں پر نیپلم کے حملے کے بعد برہنہ حالت میں بھاگ رہی تھی۔ یہ تصویر جنونی جنگ کی طاقتور علامت بنی تھی۔

آج کے دور میں ایسی ہی ایک تصویر بےبس ماں کی گود میں موجود کمزور فلسطینی بچے کی ہوگی۔ دیکھنے والے اس تصویر میں بچے کی کاغذ نما جلد سے اس کی پسلیوں کو گِن سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کُن امر یہ ہے جو اس تصویر نے دکھایا وہ یہ تھا کہ بھوک اور غذائی قلت کا شکار بچے نے امپورٹڈ پیپر ڈائپر پہن رکھا تھا۔

اس سے ایک پرانے فرانسیسی طنزیہ تبصرے کی یاد آجاتی ہے جو لوگوں کے حقیقی مصائب کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے تھا کہ ’اگر ان کے پاس دودھ نہیں تو کیا ہوا، انہیں پیمپرز تو پہننے دو!‘


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ایف ایس اعجازالدین

ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025