لاہور: دریائے راوی کے اطراف کی بستیوں کے سرکاری اسکول عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل
دریائے راوی کے اطراف کی بستیوں میں واقع سرکاری اسکولوں کو گزشتہ چند دنوں سے سیلاب زدہ علاقوں سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، کلاس رومز کے اندر بلیک بورڈ اور بینچوں کی جگہ گدے، کپڑوں کے بنڈل اور برتن رکھے ہیں، یہ وہ مختصر سامان ہے جو لوگ پانی کے گھروں اور کھیتوں کو نگل جانے سے پہلے بچانے میں کامیاب ہوئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے بے گھر ہونے والی شازیہ بی بی نے بتایا کہ ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی تھی، رات کے وقت پانی ہمارے گاؤں میں داخل ہوا اور چند گھنٹوں میں ہمارے گھر ختم ہوگئے، میرے بچے اپنے کھلونوں اور دیگر چیزوں کے لیے روتے ہیں، لیکن سیلاب سب کچھ بہا لے گیا، شازیہ کے 4 بچے ہیں اور وہ اس وقت شاہدرہ کے ایک سرکاری اسکول میں قائم امدادی کیمپ میں مقیم ہیں۔
بھاری مون سون بارشوں اور بھارت کی طرف سے آنے والے بڑے پانی کے ریلوں نے دریائے راوی کو پھیلا دیا ہے، جس نے درجنوں کنارے کی بستیوں کو ڈبو دیا ہے، ہزاروں دیہاتی، جن میں زیادہ تر دہاڑی دار مزدور اور چھوٹے کاشتکار تھے، اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
حکومت کے قائم کردہ اسکولوں میں امدادی کیمپ پناہ گاہ بننے تھے مگر حالات کٹھن ہیں، خاندان صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور ناکافی سامان کی شکایت کرتے ہیں۔
اگرچہ حکام کا دعویٰ ہے کہ طبی ٹیمیں موجود ہیں، والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کو غیر صحت بخش حالات کی وجہ سے خارش اور بخار ہو رہا ہے، خواتین بالخصوص ٹوٹی پھوٹی یا گندے واش رومز پر نالاں ہیں۔
رضاکار اور فلاحی تنظیمیں کھانا اور کپڑے مہیا کر رہی ہیں، لیکن بے گھر خاندانوں کا خیال ہے کہ یہ امداد ناکافی ہے، شاہدرہ میں ایک این جی او کے قائم کردہ ’ٹینٹ ولیج‘ میں خواتین نے بھی یہی خدشات ظاہر کیے کہ بیت الخلا ہے نہ پرائیویسی، اور بچوں میں جلدی امراض بڑھ رہے ہیں۔
چوہنگ کے سرکاری کیمپ میں مقیم اعجاز احمد نے کہا کہ میرے پاس 2 بھینسیں تھیں، دونوں ڈوب گئیں، وہی بھینسیں میری روزی روٹی تھیں، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ واپسی کے بعد اپنے گھر والوں کو کیسے کھلاؤں گا۔
اعجاز کی طرح کئی خاندان واپس جانے کے بارے میں فکر مند ہیں، ان کا سب سے بڑا خوف صرف دوبارہ انہی سیلابی علاقوں میں تعمیرات نہیں بلکہ امداد ختم ہونے کے بعد زندہ رہنے کا ہے۔
صغراں بی بی پوچھتی ہیں کہ چاہے پانی اُتر بھی جائے، ہمارے گھروں کو دوبارہ بنانے میں کون مدد کرے گا؟ حکومت ہمیں یہاں کھانا دے رہی ہے، لیکن جب ہم واپس جائیں گے تو ہمیں کون کھلائے گا؟۔
حکام بھی اس چیلنج کو سنگین قرار دیتے ہیں، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) آفس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ہم نے لاہور میں ایک درجن سے زیادہ امدادی کیمپ قائم کیے ہیں، کھانا اور طبی امداد فراہم کر رہے ہیں، لیکن بے دخلی کا پیمانہ بہت بڑا ہے اور ہم اب بھی نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے اسکولوں میں 18 امدادی کیمپ قائم ہیں، جن میں کم از کم 4 ہزار 150 افراد مقیم ہیں، اس وقت ساندا، بابو صابو، گلشنِ راوی اور شیرکوٹ کے 5 کیمپوں میں 900 افراد، تحصیل رائیونڈ کے علاقوں منگا ہتھر اور محلنوال کے 3 کیمپوں میں 2 ہزار 350 افراد، تحصیل راوی کے علاقوں شاہدرہ، جیا موسیٰ اور ہربو جبو میں 800 افرادجب کہ تحصیل علامہ اقبال ٹاؤن کے علاقوں چوہنگ، شاہ پور، نیاز بیگ اور مریدوال میں 100 افراد مقیم ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ واہگہ تحصیل کے اسکول میں قائم کیے گئے کیمپ میں ابھی تک کوئی خاندان منتقل نہیں ہوا، حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 26 ہزار 65 افراد اور 3 ہزار 222 جانوروں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکالا جا چکا ہے، مزید 65 اسکولوں کو ضرورت پڑنے پر امدادی کیمپ کے طور پر شناخت کیا جاچکا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین زور دیتے ہیں کہ یہ بحران محض وقتی امداد سے نہیں سنبھل سکتا، وہ دریا کے کناروں پر فلڈ پروٹیکشن، مؤثر وارننگ سسٹم اور نازک بستیوں کی منتقلی کے پروگرام میں سرمایہ کاری پر زور دیتے ہیں۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا، اسکولوں کے کلاس روم ان خاندانوں سے بھرے رہیں گے، جو کبھی راوی کے کنارے کو اپنا گھر کہتے تھے، یہ لوگ صرف اس بات کے منتظر نہیں کہ پانی اُترے بلکہ اس بات کے بھی منتظر ہیں کہ ان کا مستقبل کمزور نہ رہے۔












لائیو ٹی وی