کیا مودی اب برکس کے ساتھ مل کر مغربی تسلط کا مقابلہ کریں گے؟

شائع September 2, 2025

عادت کے مطابق بھارتی وزیر اعظم کے دو روزہ دورہ چین کے موقع پر کوریوگراف کیے گئے بھارتی شہریوں کے ہجوم نے ’مودی مودی‘ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔

دوسری جانب چینی میزبانوں نے ان کا استقبال بھارتی کلاسیکی موسیقی سے کیا جس سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے بھارتی ثقافت جاننے کے لیے وقت نکالا ہے جبکہ ایسا ہی کچھ بھارتیوں کے لیے کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف تجارت میں بڑا فرق ہے بلکہ ثقافت بھی کافی حد تک مختلف ہے۔

ساڑھی میں ملبوس تین چینی خواتین جن میں سے دو نے راگ دیش میں ستار اور سنتور پر بھارتی قوم پرستوں کا پسندیدہ ترانہ ’وندے ماترم‘ گایا جبکہ تیسری خاتون اس دوران دھن میں طبلہ بجاتی رہیں۔ لیکن یہ پرفارمنس دکھاوے کے لیے نہیں تھی، اس کے پیچھے چین کا مقصد اپنی سافٹ پاور کا مظاہرہ کرکے امریکا کی جانب جھکاؤ رکھنے والے نریندر مودی کو جذباتی طور پر متاثر کرکے برکس کا مقدمہ مضبوط بنانا تھا۔

جنگوں اور استحصالی پابندیوں کو جنم دینے والے مغربی سرمایہ دارانہ ماڈل کو ختم کرنا ایک ایسی ضرورت ہے جو سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے بھی محسوس کی جاتی تھی۔

اگر اس کے تجارتی مفادات کو خطرہ لاحق ہو تو مغرب اپنے دوست اور دشمن کے ساتھ یکساں رویہ اپناتا ہے۔ یہ ریت تو ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی پرانی ہے۔ اس سلسلے میں میرے مشاہدے میں ایک مثال مغرب کا پہلے صدام حسین کو کویت میں الجھانا تھا اور پھر صدام حسین کو دھوکا دینا تھا۔

یہ کہانی 1987ء کی اسٹاک مارکیٹ کریش تک جاتی ہے کہ جب مارگریٹ تھیچر کے ماتحت برطانوی حکومت تیل کمپنی بی پی میں اپنا بقیہ 31.5 فیصد حصہ فروخت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن مارکیٹ کریش نے فروخت کو برباد کرنے کا خطرہ مول لیا، جس سے برطانوی حکومت کو اربوں پاؤنڈز کا نقصان ہو سکتا تھا۔

ایسے میں کویتی انویسٹمنٹ آفس (کے آئی او) جوکہ کویت کا خودمختار دولت فنڈ کی سرمایہ کاری کا ادارہ ہے، برطانیہ کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے آگے آیا۔ اس نے اوپن مارکیٹ میں بی پی کے حصص کی خریداری شروع کردی۔ ابتدائی طور پر برطانوی حکومت خوش تھی کیونکہ کویتی ادارے نے بی پی کے حصص کی قیمت کو مستحکم رکھنے میں مدد کی، اور حکومت کو اس کی فروخت کامیابی سے مکمل کرنے کی اجازت دی۔

مختصر وقت میں کے آئی او نے بی پی میں 21.6 فیصد حصص حاصل کر لیے جس سے یہ سب سے بڑا شیئر ہولڈر بن گیا۔ جبکہ برطانیہ کی حکومت کا حصہ اب صفر ہوچکا تھا۔

پھر اچانک تھیچر حکومت زیادہ حصص ایک غیرملکی حکومت کے ہاتھ میں ہونے سے گھبرانے لگی حالانکہ یہ ایک دوست ملک کے پاس تھے۔ 21.6 فیصد حصص کے ساتھ، کویت کا کمپنی پر کافی اثر و رسوخ تھا۔

یہ خیال کہ ایک بڑی برطانوی کمپنی کو OPEC (تیل پیدا کرنے والے ممالک کا ایک گروپ) کا ایک ملک کنٹرول کر سکتا ہے، سیاسی طور پر خطرناک سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ مارگریٹ تھیچر کی حکومت نے بھی ایسا ہی سمجھا حالانکہ وہ آزاد منڈیوں کی بھرپور حمایت کرتی تھیں۔

مارگریٹ تھیچر نے باضابطہ طور پر کے آئی او کو بی پی میں اپنے حصص کم کرنے کو کہا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ کمپنی میں اپنی 9.9 فیصد ملکیت کو فروخت کریں۔ برطانیہ کی حکومت نے خبردار کیا کہ اگر کویت نے خود ایسا نہیں کیا تو وہ اسے مجبور کرنے کے لیے قانونی اور ریگولیٹری اختیارات استعمال کریں گے جس سے ممکن ہے کہ سفارتی تعلقات یا برطانیہ میں کویت کی دیگر کاروباری سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے۔

چونکہ کویت مغربی تحفظ پر انحصار کرتا تھا اور قریبی اتحادی تھا، اس لیے اس نے تعلقات کو مضبوط رکھنے کے لیے حکم کی تعمیل کی۔

پاکستان کے معروف بی سی سی آئی بینک کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بالکل مختلف نہیں تھا۔ سی آئی اے نے اعتراف کیا کہ افغان مجاہدین کو خفیہ طور پر فنڈز فراہم کرنے کے لیے بڑے بین الاقوامی بینک کا استعمال کیا گیا۔ جب کام ہو گیا تو بینک مغرب کے لیے حسد کا سامان بن گیا جسے وہ خطرے کے طور پر دیکھنے لگا۔ جیسا کہ شیکسپیئر کا ایک جملہ ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ مغرب اسی چیز کے خلاف ہو گیا جس پر وہ کبھی بھروسہ کرتا تھا۔

ہاں بی سی سی آئی بھی نیک نہیں تھا، اس کا تعلق بدعنوانی، فراڈ، منشیات کے سودے اور منی لانڈرنگ سے تھا۔ لیکن یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مغربی بینک بھی اسی طرح کے کام کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں اور انہوں نے بھاری جرمانے ادا کیے لیکن پھر بھی کبھی انہیں بند ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا۔

امریکی سینیٹ کی ایک تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ایک مغربی بینک نے میکسیکو اور کولمبیا کے منشیات کے کارٹلز کے لیے کئی سالوں میں کم از کم 88 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی۔ بینک نے منی لانڈرنگ پروٹوکولز کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے میکسیکن ذیلی ادارے سے بڑی رقم امریکا منتقل کی۔ اس سب کے باوجود متعلقہ بینک کے خلاف مجرمانہ کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کے بجائے اس نے صرف 1.9 ارب ڈالرز کا جرمانہ ادا کیا جسے بہت سے لوگوں نے جرائم کے پیمانے اور بینک کے منافع کو دیکھتے ہوئے بہت چھوٹی سزا کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایسا ہی کچھ 2008ء کے مالیاتی بحران اور رہن کی حمایت یافتہ سیکیورٹیز کے فراڈ کے دوران ہوا تھا کہ جب کئی امریکی بینکوں نے جان بوجھ کر ناقص رہن کی سرمایہ کاری کو فروغ دیا۔ انہوں نے رہن کی حمایت یافتہ سیکیورٹیز کی پیکیجنگ اور فروخت کے لیے دسیوں اربوں کے جرمانے ادا کیے جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ ان کے ناکام ہونے کا امکان ہے کیونکہ وہ بیک وقت ان کے خلاف شرط لگا رہے ہیں۔

اس فراڈ نے عالمی مالیاتی بحران کو جنم دیا۔ لیکن مذکورہ فراڈ میں ملوث تمام بینکس پاکستان کے بینک کے برعکس سیاسی طور پر محفوظ تھے۔ بی سی سی آئی نے مغربی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی جسارت کی جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔

بی سی سی آئی ترقی پذیر دنیا کا پہلا بڑا عالمی بینک تھا۔ اس کی تیز ترقی، جارحانہ حکمت عملی اور صارفین کو روایتی مغربی بینکوں سے دور رکھنے کی صلاحیت مغرب میں ناراضی اور بے چینی کا باعث بنی۔ تو جب مشکل آئی تو بی سی سی آئی کے لندن یا نیویارک جیسے شہروں میں طاقتور اتحادی نہیں تھے۔

اسی طرح ہواوے و دیگر بڑی چینی ٹیک کمپنیز جیسے زی ٹی ای (ZTE)، ٹک ٹاک اور شیاؤمی پر موجود مغربی دباؤ بھی اسی پیٹرن کا حصہ ہے۔ اگر ہم بھارت کی صورت حال کے حوالے سے بحث میں ہواوے کو شامل کرتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مغرب مضبوط غیر مغربی مسابقت سے نمٹنے کے لیے بہت سی حکمت عملیوں کا استعمال کرتا ہے۔

روس، وینزویلا اور ایران جیسے ممالک کو توڑنے کی ناکام کوششیں کی گئی ہیں تاکہ مغربی طاقتیں ان سے معاشی طور پر فائدہ اٹھا سکیں۔ ان کی یہ کوششیں کافی مشہور ہیں جن سے لیبیا سے یمن تک مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اسی طرح کے اقدامات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے۔

سرمایہ داری بنیادی طور پر نجی منافع پر چلتی ہے اور قدرتی طور پر عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کو ناپسند کرتی ہے۔ بھارت میں، تقریباً 80 کروڑ لوگ مفت یا سبسڈی والی خوراک پر انحصار کرتے ہیں جو ایک بڑے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ تضاد یہ ہے کہ ملک میں دائیں بازو کی حکومت ہے جسے بڑے کاروباروں کی حمایت حاصل ہے لیکن زیادہ تر لوگ اب بھی بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

دو سرکردہ بھارتی ٹائیکونز گوتم اڈانی اور مکیش امبانی امریکا کے ساتھ مشکلات میں ہیں۔ ایک پر امریکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش کرنے کا الزام ہے اور دوسرے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے روس سے تیل کی خریداری روکنے کے حکم کو نظر انداز کیا۔

2013ء میں یہ دونوں اُن سر فہرست گجراتی تاجروں میں شامل تھے جنہوں نے 2014ء کے انتخابات میں وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر نریندر مودی کی حمایت کی تھی۔ مودی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہی کیا جو وہ سب سے بہتر کرتے ہیں۔

انتخابات سے عین قبل، اتر پردیش میں مذہبی تشدد میں اضافہ ہوا جس نے مودی کے اقتدار کے راستے کو آسان بنانے میں مدد کی۔ اڈانی اور امبانی جیسے بڑے تاجروں اور حکومت کے درمیان سنگین مسائل ہیں اور بھارتیوں کو ان کو مغربی جوڑ توڑ کے لیے کھلا چھوڑنے کے بجائے سیاسی طاقت سے حل کرنا چاہیے۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے برکس ایک موزوں پلیٹ فارم ہو سکتا ہے اور یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ اگر وہاں مودی کے حق میں نعرے کم ہی لگائے جائیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025