’سفارتی کامیابی کا شاندار مظاہرہ، چینی صدر نے دکھا دیا وہ مکمل طور پر بااختیار ہیں‘
چین کے صدر شی جِن پنگ نے 2015 میں جب دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کی سالگرہ منانے کے لیے اپنی پہلی فوجی پریڈ منعقد کی، تو انہوں نے اپنے ساتھ 2 پیشرو رہنماؤں کو کھڑا کیا تھا تاکہ قیادت کے تسلسل اور احترام کا اظہار کیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق آج شی جن پنگ نے 10 سال بعد اور غیر معمولی تیسری مدتِ صدارت میں اندورنی مخالفت ختم کرنےکے بعد، 3 ستمبر کو منعقدہ پریڈ کے موقع پر اپنے دائیں اور بائیں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے کم جونگ اُن کو کھڑا کیا۔
یہ پریڈ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے اختتام اور بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے شی جن پنگ کی اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد تیانانمن اسکوائر میں منعقد ہوئی۔
اس سفارتی طاقت، برداشت اور جغرافیائی سیاسی عزم کے مظاہرے نے 72 سالہ صدر کی صحت اور جانشینی کے بارے میں مبصرین کی تشویش کو کم کیا ہے، جسے اُن کی کبھی کبھار کی غیر حاضریوں اور نامعلوم مستقبل کی منصوبہ بندی سے جوڑا جا رہا تھا۔
ماہرین کے مطابق چینی صدر کو اس پیش رفت سے مقامی سطح پر ، سست ہوتی ہوئی معیشت سے توجہ ہٹانے میں بھی مدد ملی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جب عالمی رہنما بیجنگ کے تیانانمن اسکوائر میں اسٹیج کی جانب بڑھ رہے تو طویل عمری کا موضوع بھی زیرِ بحث آیا، اس دوران شی جن پنگ اور ولادیمیر پیوٹن کے درمیان اعضا کی پیوندکاری اور انسانوں کے 150 سال تک زندہ رہنے کے امکان پر گفتگو مائیک پر غیر ارادی طور پر ریکارڈ ہوگئی۔
نیو یارک میں قائم تھنک ٹینک ایشیا سوسائٹی کے نیل تھامس نے کہا کہ سفارتی فتوحات کا یہ ہفتہ ظاہر کرتا ہے کہ شی جن پنگ اب بھی کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ سطح کی سیاست پر مکمل طور پر قابو رکھتے ہیں۔
نیل تھامس کے مطابق شی جن پنگ کا یہ معیشت کی مشکلات سے توجہ ہٹانے اور شہریوں کو چینی ہونے پر فخر دلانے کا ایک طریقہ ہے، چاہے بیروزگاری، جائیداد کی گرتی ہوئی قیمتیں اور ٹھہری ہوئی تنخواہیں، روزمرہ کی زندگی میں اس احساس کو کمزور ہی کیوں نہ کر دیں۔
شی جن پنگ کے نائب، وزیرِاعظم لی کیانگ، جن کا اندرونِ ملک کرادر کمزور ہو چکا ہے، انہیں ملائیشیا اور ازبکستان جیسی نسبتا چھوٹے درجے کی ریاستوں کے سربراہان سے ملاقاتوں پر مامور کیا گیا، جب کہ اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں، جن میں کم جونگ اُن، نریندر مودی، ترک صدر طیب اردوان اور دیگر کے ساتھ، پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کے سربراہ کائے چی نے کیں۔
رائٹرز کی تبصرے کی درخواست پر چینی وزارتِ خارجہ نے پریس کانفرنسز کی وہ دستاویزات جاری کیں جن میں حالیہ سفارتی سرگرمیوں کے حوالے سے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ چین کی شراکت داری اور پر امن ترقی اور بین الاقوامی تعاون کے عزم کو نمایاں کیا گیا ہے۔
ان میں سے کئی ممالک، بشمول بھارت جن کے رہنما حالیہ ہفتے چین گئے، رواں سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پابندیوں کا نشانہ بنے ہیں۔
سفارتی ملاقاتوں کے ایک یادگار لمحہ وہ بھی تھا جب نریندر مودی اور ولادیمیر پیوٹن ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے شی جن پنگ کے پاس بات چیت کے لیے گئے، جس سے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے درمیان ذاتی تناؤ اور واشنگٹن کی روس و چین کے مقابلے میں بھارت کو ساتھ نہ ملا پانے کی ناکامی واضح طور پر نمایاں ہوئی۔
اسٹریٹجک ایڈوائزری فرم ٹریویم چائنا کے ڈائریکٹر ایون پے نے کہا کہ آخرکار، ایس سی او کے اتحاد کے مظاہرے کے بڑے محرکات میں سے ایک امریکی پالیسی رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے چین کی فوجی پریڈ کو خوبصورت اور انتہائی متاثر کن قرار دیا، انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک طنزیہ پوسٹ میں کہا تھا کہ چین، ولادیمیر پیوٹن اور کم جونگ اُن کے ساتھ مل کر امریکا کے خلاف سازش کر رہا ہے۔
کریملن نے اس کے جواب دیا کہ وہ سازش نہیں کر رہے اور ساتھ ہی کہا کہ صدر ٹرمپ کے تبصرے طنزیہ ہیں۔
ٹرمپ کے نشانے پر، شی جن پنگ کی آغوش میں
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے صدر کی یہ برق رفتار سرگرمیاں اس بات کو اُجاگر کرتی ہیں کہ چین ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک قابلِ بھروسہ شراکت دار بننے کے عزائم رکھتا ہے، جو سرمایہ کاری کے مواقع اور ایک نئے ترقیاتی بینک جیسی سہولتیں ترقی پذیر ممالک کو فراہم کر رہا ہے۔
گزشتہ دہائیوں کے دوران شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت، پاکستان اور ایران کی شمولیت، ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
چائنا-گلوبل ساؤتھ پراجیکٹ کے ایڈیٹر انچیف ایرک اولینڈر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ چین کا واضح پیغام کہ وہ امریکا کے مقابلے میں ایک زیادہ قابلِ بھروسہ اور مستحکم متبادل ہے۔
چین دنیا کے بڑے حصوں خصوصا ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، ان ایشائی ممالک میں امریکا کو عالمی امور میں ایک بڑھتی ہوئی جارح قوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایرک اولینڈر کے مطابق متعدد ترقی پذیر ممالک اور درمیانے درجے کی طاقت رکھنے والی ریاستیں شاید اب بھی چین کے نئے حکمرانی اور ترقیاتی منصوبوں پر قدرے متذبذب ہوں، لیکن کم از کم چین کی گفتگو مستقبل پر نظر رکھنے والی ہے، جو اُن معیشتوں کے لیے نہایت اہم ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی آبادی بہتر روزگار کے مواقع کی تلاش میں ہے۔
شی جن پنگ کو بڑے اور اختلافات سے بھرپور اتحاد کو سنبھالنے میں نمایاں چیلنجز کا سامنا درپیش ہے، کیونکہ وہ 2027 میں ممکنہ طور پر چوتھی مدتِ صدارت کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ اپنی میراث کو ماؤ زے تنگ کے بعد سب سے طاقتور چینی رہنما کے طور پر مزید مستحکم کر سکیں۔
ماہرین کے مطابق چین کی پختہ خارجہ پالیسی کی پوزیشنیں، بشمول سرحدی تنازعات اور صنعتی سبسڈیز جن کی وجہ سے سستے برآمدات غیر ملکی منڈیوں میں بھر گئی ہیں، بدستور کشیدگی کا باعث رہیں گی، جبکہ بھارت کا چین پر گہرا عدم اعتماد محض ایک مختصر ملاقات سے ختم نہیں ہو گا۔











لائیو ٹی وی