دی بنگال فائلز: تاریخ مسخ کرنے کے سلسلے کی ایک اور کڑی
جس برس لینن کی قیادت میں سوویت یونین کا قیام عمل میں آیا، یورپ اور امریکا میں سنیما اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ بالخصوص ہولی وڈ کے قیام کے بعد امریکا میں فلم اسٹوڈیوز اور سپر اسٹارز کا تصور فروغ پا رہا تھا۔
جب لینن اور سوویت تجزیہ کاروں نے سنیما کا بہ طور ذرائع ابلاغ جائزہ لیا تو وہ فوراً جان گئے کہ یہ سیاسی نظریات کی ترویج کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اسی تناظر میں سوویت یونین نے سنیما کے قیام اور ترویج کی اجازت دی۔ اس میڈیم کی اثر پذیری کے باعث یہ جلد ہی دنیا کے بااثر طبقات کی توجہ کا محور بن گیا۔ سوشلسٹس کی طرح کیپٹلسٹس نے بھی اسے اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
سنیما اور بھارت
ہندوستان برسوں تک برطانوی نوآبادیات رہا اور نوآبادیات بھی ایسا کہ جسے دونوں ہاتھوں سے لُوٹا گیا۔ البتہ اسی سرکار انگلشیہ کی وجہ سے دنیا کی جدید ایجادات وقت سے پہلے ہندوستان پہنچ گئیں جن میں سے ایک سنیما بھی تھا۔ بٹوارے تک ہندوستان میں سنیما اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ بالخصوص بمبئی، بنگال اور لاہور میں اس نے اپنے پاؤں جما لیے تھے۔
1947ء کے بعد بمبئی فلم نگری نے سب سے زیادہ ترقی کی۔ بولی وڈ کہلانے والی اس فلم انڈسٹری نے جلد عالمی سنیما میں جگہ بنا لی۔ دنیا کے دیگر سنیماؤں کی طرح یہ بھی بھارتی سرکار، بالخصوص پنڈت جواہر لال نہرو کے سوشلسٹ، سیکی جیولر اور روشن خیال نظریات کی ترویج کا ذریعہ بنا۔
گو بعد کے عشروں میں کانگریس نے نہرو کے نظریات ترک کر کے قومی، مذہبی اور اکثریتی بیانیہ اختیار کر لیا۔ پاکستان مخالف فلموں کی بنیاد پڑ گئی اور مسلم کرداروں کی پیش کش اور اردو زبان کا استعمال دھیرے دھیرے کم ہونے لگا۔
نریندر مودی کی آمد
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تو پہلے بھی اقتدار میں آئی مگر نریندر مودی کے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد بھارت کے سوشل فیبرک میں پریشان کن تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ ان تبدیلیوں نے بولی وڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خانز جو کل تک بولی وڈ پر راج کرتے تھے، پہلے پہل بی جے پی کی قیادت اور حامیوں کی جانب سے تنقید کے رگڑے میں آئے اور پھر بائیکاٹ گینگ کی دھونس اور دھمکیوں کی زد میں آگئے۔
پردے کے پیچھے ہونے والے واقعات کا اثر جلد سنیما کے پردے پر بھی ظاہر ہونے لگا۔ وہ بھارتی میڈیا جو کل تک اکبر اور ٹیپو سلطان کو ہیرو کے طور پر پیش کرتا تھا، اُس کے لیے اچانک مسلمان ’غیر‘ اور مغل ’ہندو دشمن‘ ہو گئے۔ علا الدین خلجی، احمد شاہ ابدالی، اورنگ زیب اور اکبر جیسے تاریخی مسلم کرداروں کی پیش کش میں فکشن کا ٹانکا لگا کر نہ صرف اُنہیں مسخ کیا گیا بلکہ ان کے مدمقابل ہندو کرداروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ لکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

’دی کشمیر فائلز‘ اور ’دی کیرالا اسٹوری‘ سمیت ایسی متعدد فلمیں بنیں جنہوں نے حقائق کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے خلاف نفرت، بالخصوص اسلاموفوبیا کو فروغ دیا۔ مودی سرکار میں پروپیگنڈا فلموں کے میدان میں سب سے نمایاں کردار ہدایت کار اور کہانی کار، وویک اگنی ہوتری نے ادا کیا۔
وویک اگنی ہوتری
51 سالہ وویک اگنی ہوتری کی کہانی دلچسپ ہے۔ اداکارہ کنگنا رناوت کے برعکس یہ ہمیشہ سے دائیں بازو کے ترجمان نہیں تھے۔ ’چاکلیٹ‘،’گول‘ اور ’ہیٹ اسٹوری‘ جیسی کمرشل اور کامیاب فلمیں دینے والے اس ہدایت کار نے سال 2019ء میں ’دی تاشقند فائلز‘ نامی فلم بنا کر اپنے ایک نئے رخ سے ناقدین کو متعارف کروایا۔ یہ فلم بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی اچانک اور پُراسرار موت کا احاطہ کرتے ہوئے ایک متوازی تاریخ بیان کرنے کی سعی کرتی ہے۔

سال 2022ء میں ’دی کشمیر فائلز‘ بنا کر وویک نے سنسنی پھیلا دی۔ یہ فلم ہندوتوا کے نقطہ نظر سے، 90ء کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی بے دخلی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ ہدایت کار کی جانب سے اس واقعے کو ’نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ وہ تاریخ ہے جس پر خاموشی کا پردہ ڈالا گیا۔
محض 20 کروڑ میں بننے والی اس فلم نے 300 کروڑ سے زائد کا بزنس کرکے نئی تاریخ رقم کر دی۔ البتہ اس نے کئی تنازعات کو جنم دیا۔ اس فلم میں وویک اگنی ہوتری کے پیش کردہ نقطہ نظر کو تاریخ سے متصادم اور مبالغہ آرائی پر مبنی ٹھہراتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ فلم بی جے پی کے مؤقف سے ہم آہنگی تھی، اس لیے اسے ٹیکس فری قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور تشہیر کی گئی۔
اس فلم کی شہرت کے بعد وویک اگنی ہوتری ایک متنازع شخص کے طور پر ابھرے۔ سال 2023ء میں یہ ہدایت کار ’دی ویکسین وار‘ کے ساتھ واپس آیا جو کوویڈ-19 کے دوران بھارتی سائنسدانوں کی ویکسین کی تیاری کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ فلم ناقدین اور ناظرین، دونوں ہی کی توجہ حاصل نہیں کرسکی۔ اس کے بعد انہوں نے’دی بنگال فائلز’ بنانے کا اعلان کیا،جس نے بے چینی پھیلا دی۔
اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز پروپیگنڈا
فلم کے اعلان اور اس سے متعلق بیانات نے ایک بڑے تنازع کو جنم دیا۔ رہی سہی کسر ٹریلر نے پوری کر دی جس سے واضح ہوگیا تھا کہ وویک اگنی ہوتری ’دی کشمیر فائلز‘ والا متنازع فارمولا آزمانے کو تیار ہیں۔
دو ٹائم لائنز پر مبنی یہ فلم انتہائی متنازع ہے۔ اس میں بنگال کو کمیونل یا مذہبی سیاست کا گڑھ قرار دیتے ہوئے، ہندوؤں کے لیے نیا کشمیر ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک سمت یہ موجودہ بنگال میں ایک دلت لڑکی کے اغوا کے کیس کا احاطہ کرتی ہے وہیں دوسری جانب اسی کیس سے جڑی ایک بوڑھی عورت کی کہانی فلیش بیک میں بیان کی گئی ہے جو اگست 1946ء میں بنگال میں پھوٹ پڑنے والے ہولناک ہندو مسلم فسادات کا نشانہ بنی تھی۔
مسلم لیگ کی کال پر ہونے والا ایکشن ڈے اور اس دوران ہونے والے فسادات حقیقت ہیں۔ البتہ وویک اگنی ہوتری نے توقع کے عین مطابق اس کا سارا الزام مسلمانوں پر عائد کرتے ہوئے، اسے ہندو نسل کشی کی سازش سے تعبیر کیا ہے۔ ساتھ ہی دعویٰ کیا ہے کہ بنگال کے اسی پُرتشدد واقعے کے ذریعے مسلم لیگ نے ہندوستان کی تقسیم کی بنیاد رکھی۔
یہ فلم تشدد کی انتہائی جانبدارانہ شکل پیش کرتے ہوئے، ہندوستان کی مسلم اقلیت کے خلاف اشتعال اور نفرت کو بڑھاوا دیتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نفرت کو صرف بٹوارے کی ٹائم لائن تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ موجودہ بنگال تک کھینچ کر لایا گیا ہے اور بنگال کی سیاست اور وہاں کے مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کیا گیا ہے۔
آج مغربی بنگال بی جے پی کی نظریاتی حریف آل انڈیا ترنمول کانگریس کا گڑھ ہے اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی مودی سرکار کی سب سے بڑی ناقد سمجھی جاتی ہیں۔ یہ فلم بی جے پی اور ہندو انتہاپسندوں کے نزدیک سچ تو ہوسکتی ہے مگر بنگال کی نظر میں محض پروپیگنڈا ہے۔ اسی لیے فلم پر مغربی بنگال میں غیراعلانیہ پابندی عائد ہے اور اسے سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ 1946ء میں مسلم لیگ کے مرکزی رہنما اور بعدازاں وزیر اعظم پاکستان بننے والے حسین شہید سہروردی بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے جو ان فسادات کی وجہ سے تنقید کی زد میں آئے۔ وویک اگنی ہوتری نے اس قتل عام کا براہ راست ذمے دار مسلم لیگ اور سہروردی کو قرار دیا ہے۔
فلم تجزیہ کے کسوٹی پر
چند ناقدین کے مطابق فلم میں قتل و غارت گری اور اموات کے معاملے میں وویک اگنی ہوتری نے ایک بار پھر مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے جس کا مقصد بنگال کی سیاست اور وہاں کے مسلمانوں کے تشخص کو مسخ کرنا تھا۔
فلم میں مسلمانوں کے خلاف کہیں واضح اور کہیں ڈھکا چھپا پروپیگنڈا دیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسے فلم میں جہاں ظلم کے سامنے قانون کی بے بسی کو منظر کیا گیا ہے، اس کے پس منظر میں اذان کی آواز اور مسجد کے گنبد دکھا کر مسلم مخالف نظریات کی ترویج دی گئی ہے۔ فلم میں مسلمانوں کی جانب سے فسادات اور قتل و غارت گری سے قبل کی جانے والی تقاریر کو مذہبی حوالوں سے مزین کرکے اسلاموفوبیا کا رنگ شامل کیا گیا ہے۔
کردار نگاری میں خامیاں واضح ہیں۔ متھن چکرورتی کا کردار ہو یا انوپم کھیر کا گاندھی کا کردار نبھانے کی کوشش، اُن میں گہرائی کا فقدان نظر آتا ہے۔ فلم کے کردار بنگالی اور ہندی کے درمیان جس طرح سوئچ کرتے ہیں، اس سے چیزیں مصنوعی محسوس ہوتی ہیں۔
محمد علی جناح اور حسین شہید سہروردی کے کرداروں کو فقط مسلمانوں اور مسلم لیگ کی کردار کشی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ایک طویل سین میں گاندھی اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والا مکالمہ روایتی اور جانبدارانہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ مکالمے گویا وویک اگنی ہوتری کی زبان سے ادا ہوتے محسوس ہوئے اور بی جے پی کے نظریات کی ترجمانی کرتے نظر آئے۔

حرف آخر
فلم کو ناقدین سے ملا جلا ردعمل ملا ہے کیونکہ یہ فلم متعدد فلموں کے ساتھ ریلیز ہوئی، اس لیے ابتدائی دنوں کے باکس آفس نمبر اتنے حوصلہ افزا نہیں۔ ایسے میں جب بی جے پی اور نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے، کیا اپنے فن کے ذریعے ہندوتوا کے سیاسی نظریے کی پشت پناہی کرنے والے وویک اگنی ہوتری کی نئی فلم ناظرین کو متوجہ کر پائے گی؟ اس کا فیصلہ چند روز میں واضح ہوجائے گا۔














لائیو ٹی وی