سلمان علی آغا کا بے خوف انداز پاکستان کرکٹ کیلئے نئے دور کی علامت
سلمان علی آغا ذرا بھی نہیں گھبرائے، انہیں معلوم تھا کہ کیا کہنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایشیا کپ کے کپتانوں کی پریس کانفرنس میں اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہوں نے اپنی ٹیم کو اتوار کو بھارت کے خلاف میچ میں ٹھنڈے دماغ سے کھیلنے کی ہدایت کی ہے؟ انہوں نے کہاکہ ’کھلاڑیوں کے لیے ایسی کوئی ہدایت نہیں ہے‘، واضح رہے کہ مئی میں مختصر مسلح جھڑپ کے بعد پاکستان اور بھارت کا کرکٹ کے میدان میں آج پہلا ٹاکرا ہوگا۔
سلمان علی آغا نے مزید کہاکہ ’میرے کھلاڑی جب چاہیں جتنی مرضی جارحیت دکھا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ میدان کے اندر ہی رہے‘۔
یہ پاکستانی کرکٹ کے شائقین کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا، چاہے وہ عام تماشائی ہوں یا پرجوش مداح، دیانت داری، اعتماد اور غیر معذرت خواہانہ انداز سلمان علی آغا کے پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کپتان کے طور پر ابتدائی دنوں کی پہچان بن گئے ہیں، ان کی آمد مائیک ہیسن کی بطور وائٹ بال ہیڈ کوچ تقرری کے ساتھ ہوئی اور دونوں نے مل کر وہ ڈھانچہ بنانے کی کوشش کی ہے جو طویل عرصے سے پاکستان کرکٹ میں غائب تھا۔
22 سالہ مداح علی ذکی نے ہفتے کو ڈان سے گفتگو میں کہا کہ ’سلمان کی بطور پاکستان کپتان تقرری نے توقعات بڑھا دی ہیں، اگرچہ ہماری ٹیم ناتجربہ کار ہے، لیکن کھلاڑیوں کی نیت صاف نظر آتی ہے، اس سے پہلے مجھے ٹیم سے کوئی توقع نہیں تھی‘۔
ذمہ داری ملنے کے بعد 15 میچوں میں سلمان علی آغا اور مائیک ہیسن نے اگرچہ پیغام رسانی کو مکمل نہیں بنایا، لیکن دونوں ہمیشہ واضح اور یکساں رہے ہیں، مائیک ہیسن نے جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں، جن میں بابر اعظم اور محمد رضوان پر انحصار ختم کرنا اور نوجوان کھلاڑیوں پر اعتماد کرتے ہوئے انفرادی کارکردگی کے بجائے ٹیم کے مجموعی کلچر پر زور دینا سب سے نمایاں فیصلہ ہے۔
دوسری طرف، سلمان علی آغا نے غیر معمولی دیانت داری سے بات کی ہے، انہوں نے حالیہ پوڈکاسٹ میں یاد دلایا کہ ’آپ میرٹ کے بغیر پاکستان ٹیم میں جگہ نہیں بنا سکتے، آپ کو کڑے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اور ہر سطح پر مستقل مزاجی کے ساتھ کارکردگی دکھانی ہوتی ہے‘۔
ان کا انداز اس جھجک اور کمزوری سے بالکل مختلف ہے جو ان سے پہلے کے دور کی خاص پہچان بن گئی تھی، گزشتہ سال پاکستان کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سفر پہلے ہی مرحلے میں اختتام کو پہنچ گیا تھا، جس میں امریکا کے خلاف شرمناک شکست بھی شامل تھی، یہاں تک کہ جب کبھی ٹیم کو تھوڑا بہت استحکام ملا تو بھی تبدیلی سے ہچکچاہٹ رہی اور بڑے حریفوں کے انداز کو اپنانے کی خواہش نظر نہیں آئی۔
اب صورتحال مختلف نظر آتی ہے، صائم ایوب، صاحبزادہ فرحان اور حسن نواز جیسے ابھرتے ہوئے ناموں کو کھیل پر کھل کر حاوی ہونے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
سلمان کے لیے یہ تبدیلی دراصل پاکستان کی کرکٹ شناخت کو ازسرِ نو ترتیب دینے کی کوشش ہے، اسی پوڈکاسٹ میں انہوں نے کہا کہ’ہم اب خوف کے ساتھ کھیلنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، ہمارا کام ہے کہ کھیل پر دسترس حاصل کریں، چاہے سامنے کوئی بھی حریف ہو‘۔
یہ اعتماد اس بات میں بھی جھلکنے لگا ہے کہ پاکستان خود کو کس طرح پیش کرتا ہے، میڈیا سے بات چیت زیادہ تیز اور واضح ہو گئی ہے، اب مقصد ساکھ بچانا نہیں بلکہ شفافیت ہے۔ اسٹیپ مائیکس نے بھی سلمان کی سلپ فیلڈ میں باتیں، جملے، چھیڑ چھاڑ اور کبھی کبھار بے ضرر گالیاں ریکارڈ کی ہیں، جو شائقین کو ایک ایسی ڈریسنگ روم کی جھلک دیتے ہیں جو اب اپنی شخصیت چھپانے میں شرمندہ نہیں۔
ایک لمحے کو ایسا لگتا ہے کہ جنریشن زی سے تعلق رکھنے والے مداح ٹھیک کہتے ہیں، پاکستان کا ’رعب‘ اب ماضی کے بجائے حال سے جڑا ہوا ہے۔











لائیو ٹی وی