عالمی پیمانے کے مطابق قرضوں کے لحاظ سے پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے، وزارت خزانہ
وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ عالمی پیمانے کے مطابق قرضوں کے لحاظ سے پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے، ملک کا قرضوں کا رجحان ’ روپے کے مجموعی اعداد و شمار کے مقابلے میں آج زیادہ پائیدار ہے،’ وزارت نے جی ڈی پی کے لحاظ سے قرض کے تناسب میں کمی، قبل از وقت ادائیگیوں، کم شرح سود اور مضبوط بیرونی کھاتوں پر اپنی مسلسل توجہ کو اس کی وجہ قرار دیا۔
وزارت خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی قرض منیجمنٹ حکمت عملی کا مرکز عوامی قرض سے جی ڈی پی کے تناسب کو ڈیبٹ لیمیٹیشن ایکٹ کے مطابق لانا ہے، جس کے تحت مؤثر قرض انتظام کے ذریعے وفاقی مالی خسارے اور قرض سے جی ڈی پی کے تناسب کو مناسب سطح پر لانا ہے۔
بیان میں مزید کہا کہ یہ حکمت عملی ’ ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کو کم سے کم کرنے اور سود کی بچت پیدا کرنے پر مشتمل ہے تاکہ پائیدار عوامی مالیات کو سہارا دیا جا سکے۔’
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جون 2025 تک صرف ایک سال میں ملکی حکومت کا کل قرض 90 کھرب روپے بڑھ گیا ہے، جس میں سے زیادہ تر اضافہ ملکی قرض کا ہے۔
ایس بی پی کے مطابق، کل سرکاری قرضہ جون 2024 میں 689 کھرب 10 ارب روپے سے بڑھ کر جون 2025 میں778 کھرب 90 ارب روپے ہو گیا، یعنی89 کھرب 70 ارب روپے کا اضافہ ہوا، یہ اعداد و شمار مالی سال 2026 کے وفاقی بجٹ میں قرض کی ادائیگی کے لیے مختص 82 کھرب 7 ارب روپے سے زیادہ ہیں۔
ان اعداد و شمار کے پیش نظر، ملک کی ریونیو اور اخراجات کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔
روزنامہ ڈان کے ایک اداریے نے کہا کہ پاکستان کی ’ قرض کی حرکیات ایک مشکل مالی منظرنامہ پیش کرتی ہیں۔’
اداریے میں مزید کہا گیا کہ’ حکومت کے لیے اختیارات محدود ہیں: یا تو نایاب ملکی وسائل کو منتقل کرے، جس کے لیے آئی ایم ایف کی منظوری درکار ہوگی، یا مزید قرض لے کر پہلے ہی بلند قرض کے پہاڑ میں اضافہ کرے۔’
تاہم وزارتِ خزانہ نے، ’ عوامی قرض کی سطح کے بارے میں حالیہ تبصروں’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ مطلق اعداد و شمار، جو قدرتی طور پر مہنگائی کے ساتھ بڑھیں گے، اکیلے میں پائیداری کے بامعنی اشاریے نہیں ہیں۔ پائیداری کا مناسب پیمانہ قرض کو معیشت کے سائز کے مقابلے میں دیکھنا ہے یعنی قرض سے جی ڈی پی کا تناسب، نہ کہ مطلق روپے کی مقدار۔ ’
وزارت خزانہ نے بیان میں مزید کہا کہ’ اس پیمانے کے مطابق، جو عالمی سطح پر اپنایا جاتا ہے، پاکستان کی پوزیشن دراصل گزشتہ چند برسوں میں بہتر ہوئی ہے، جی ڈی پی کے لحاظ سے قرض کا تناسب مالی سال 2022 میں 74 فیصد سے کم ہو کر مالی سال 2025 میں 70 فیصد ہو گیا، اسی دوران حکومت نے رول اوور اور ریفنانسنگ کے خطرات کو کم کیا اور ٹیکس دہندگان کو قابلِ ذکر سود کی بچت فراہم کی۔’
اپنی قرض منیجمنٹ پالیسی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وزارت نے قرض سے جی ڈی پی میں کمی، قبل از وقت ادائیگیوں، کم شرح سود اور مضبوط بیرونی کھاتوں کو اپنی ترجیحات بتایا۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ اس طریقۂ کار نے اس کی ’ معاشی استحکام، خطرات میں کمی اور ذمہ دارانہ مالی انتظام’ کی عکاسی کی۔
وزارت خزانہ نے نشاندہی کی کہ حکومت نے ’ پاکستان کی قرض کی تاریخ میں پہلی بار’ کمرشل اور مرکزی بینکوں کے ذمے تقریباً 2600 ارب روپے قبل از وقت ادا کیے، اس سے رول اوور اور ریفنانسنگ کے خطرات کم ہوئے اور آخرکار ٹیکس دہندگان کو ’ سود میں سیکڑوں ارب روپے کی بچت’ ہوئی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے مزید کہا گیا کہ’ اسی طرح مالی لحاظ سے، وفاقی مالی خسارہ مالی سال 2025 میں 71 کھرب روپے رہا جو مالی سال 24 میں 77 کھرب روپے تھا، وزارت خزانہ نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان نے ’ تاریخی طور پر 2.4 فیصد جی ڈی پی یا 27 کھرب روپے کا بنیادی سرپلس مسلسل دوسرے سال کے لیے حاصل کیا۔’
وزارت نے مزید کہا کہ نتیجتاً، ملک کا ’ کل قرضہ جات سال بہ سال 13 فیصد بڑھے، جو پچھلے پانچ سالوں کی اوسط 17 فیصد شرح سے کم ہے۔’
وزارت نےمالی سال 25 میں 2 ارب ڈالر کے ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کو اپنی ’ محتاط مالی حکمتِ عملی’ کا نتیجہ قرار دیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ سود کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے، مالی ذمہ داریوں کے محتاط انتظام اور مالی سال 25 میں شرح سود میں کمی کے ذریعے بجٹ کے مقابلے میں 850 ارب روپے سے زیادہ کی سود کی بچت ہوئی، اسی طرح موجودہ مالی سال کے بجٹ میں سود کے لیے 82 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو مالی سال 25 کے98 کھرب روپے سے کم ہیں۔’
وزارت خزانہ کی جانب سے مزید کہا گیا کہ’ عوامی قرض کی اوسط مدتِ ادائیگی مالی سال 25 میں تقریباً 4.5 سال تک بہتر ہوئی، جو پچھلے سال تقریباً 4.0 سال تھی؛ اس میں بھی ملکی قرض کی اوسط مدتِ ادائیگی تقریباً 2.7 سال سے بڑھ کر 3.8 سال سے زیادہ ہو گئی ہے۔’
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ بیرونی قرض کے اضافے کا ایک حصہ ادائیگیوں کے توازن کی معاونت کی عکاسی کرتا ہے، مثلاً آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ پروگرام سے رقوم کی آمد اور سعودی عرب سے تیل کی فنانسنگ جیسی سہولتیں، جنہیں روپے میں فنانسنگ کی ضرورت نہیں۔’
وزارت خزانہ نے کہا کہ ’ بیرونی قرض میں تقریباً 800 ارب روپےکا اضافہ دراصل ایکسچینج ریٹ کی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے ہے۔’











لائیو ٹی وی