امریکا اور اسرائیل، ٹرمپ کے غزہ جنگ ختم کرنے کے منصوبے پر معاہدے کے قریب
امریکا اور اسرائیل، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے منصوبے پر ایک معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایک سینئر امریکی عہدیدار کے حوالے سے ایکسیوس کے رپورٹر باراک راویڈ نے اتوار کو سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ایکس‘ پر بتایا کہ یہ پیش رفت امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد سامنے آئی ہے۔
اس سے قبل دن میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ پیر کو اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں غزہ امن منصوبے کی تجویز کو حتمی شکل دے سکیں گے۔
’رائٹرز‘ اس رپورٹ کی فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
ٹرمپ اور نیتن یاہو کی آج ملاقات
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو پیر کو وائٹ ہاؤس میں اس سال چوتھی بار ملاقات کر رہے ہیں، یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب غزہ کی مستقبل کی حکمرانی کا منصوبہ زیر گردش ہے، اور غزہ اسرائیل کی لگ بھگ 2 سالہ نسل کش جنگ سے تباہ ہو چکا ہے، اس دوران دونوں ممالک کے آہنی تعلقات ایک امتحان سے گزر سکتے ہیں۔
اس سے قبل نیتن یاہو نے فاکس نیوز کو بتایا تھا کہ اسرائیل واشنگٹن کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو ’عملی شکل دینے‘ پر کام کر رہا ہے۔
یہ 21 نکاتی منصوبہ ’جنگ کے بعد کا دن‘، پہلی بار گزشتہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے اجلاسوں کے موقع پر عرب اور مسلم رہنماؤں کو پیش کیا گیا تھا۔
دوسری طرف نیتن یاہو کے اہم وزراء اور اتحادی، بشمول وزیرِ خزانہ اسموٹریچ اور وزیرِ قومی سلامتی اتمار بن گویر پرزور انداز میں باقی ماندہ غزہ کو تباہ کرنے اور ’رضاکارانہ ہجرت‘ کو بغیر واپسی کے فروغ دینے کے حامی ہیں۔
یہ دونوں وزرا انتہائی دائیں بازو کے سخت گیر رہنما ہیں، اور خود دیگر وزرا اور پرتشدد آبادکار تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ غیر قانونی یہودی بستیوں میں رہتے ہیں، ان پر کئی مغربی حکومتیں پابندیاں لگا چکی ہیں، یہ پہلے ہی ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں، حالاں کہ وہ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتے رہے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو کو ایسا کوئی معاہدہ قبول کرنے کا اختیار نہیں، جب تک کہ حماس کو ختم نہ کر دیا جائے، جو اکتوبر 2023 میں جنگ کے لیے مقرر کردہ کلیدی ہدف تھا۔
تاہم، نیتن یاہو کو ٹرمپ کے دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے، جنہیں وہ وائٹ ہاؤس کی غیر مشروط حمایت اور سفارتی تحفظ کے بعد خوش کرنا چاہیں گے۔
نیتن یاہو کی ڈگمگاتی حکومت
اسرائیلی کنیسٹ میں نیتن یاہو کا اتحاد، جو اس کی لیکوڈ پارٹی کی 32 نشستوں کی قیادت میں ہے، پہلے ہی ایک اقلیتی حکومت کی صورت میں 120 میں سے صرف 60 نشستوں کے ساتھ ڈگمگا رہا ہے۔
دو بڑی انتہاپسند مذہبی (الٹرا آرتھوڈوکس) جماعتوں نے نیتن یاہو کو مشکل میں ڈال دیا تھا، جب ایک نے حکومت چھوڑ دی اور دوسری جماعت نے جولائی کے وسط میں اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، وجہ یہ تھی کہ نیتن یاہو کی حکومت جنگ کے دوران مذہبی طلبہ کے لیے فوجی بھرتی سے مستقل استثنیٰ دینے کی ضمانت دینے میں ناکام رہی تھی۔
اسموٹریچ اور بن گویر کی جماعتوں کے پاس 13 نشستیں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگر وہ سب اتحاد سے نکل جائیں تو وہ نیتن یاہو کی شدید تنقید کا شکار حکومت کو گرا سکتے ہیں اور نئے انتخابات پر مجبور کر سکتے ہیں۔
بن گویر نے دراصل جنوری میں جنگ بندی کے خلاف بطور احتجاج کابینہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، جنگ بندی کے نتیجے میں کچھ اسرائیلی قیدی واپس آئے تھے، اور وہ جلد ہی کابینہ میں اس وقت واپس آ گئے تھے، جب اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر بمباری شروع کی تھی۔
بعید ہے کہ یہ انتہاپسند رہنما حکومتی اتحاد کو کسی وقت جلد گرا دیں، کیوں کہ اسرائیل زیادہ تر امداد کو غزہ میں جانے سے روک رہا ہے اور ٹینکوں کے ساتھ اس کے سب سے بڑے شہری مرکز میں مزید اندر دھکیل رہا ہے اور سمندر و فضا سے بمباری کر رہا ہے۔
مغربی کنارے میں روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی چھاپے اور آبادکاروں کے حملے فلسطینیوں کے خلاف جاری ہیں، اسرائیل مزید زمین پر قبضہ کر رہا ہے اور مقامی گھروں کو مسمار کر رہا ہے، اس کے باوجود کہ ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے کے الحاق کی اجازت نہیں دیں گے۔
ٹرمپ کی نئی تجویز بھی فی الحال انتہائی عبوری نظر آ رہی ہے، اور اگر سب اس پر راضی ہو جائیں اور اسے اقوام متحدہ کی منظوری بھی مل جائے تو بھی اسے نافذ ہونے میں طویل وقت لگے گا۔
غزہ کی مستقبل کی حکمرانی کا ڈھانچہ
ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا منصوبہ اسرائیل اور ٹونی بلیئر کی سربراہی میں ایک تنظیم کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے، جو 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے وقت برطانیہ کے وزیرِاعظم تھے، جسے جھوٹے دعو=ں کی بنیاد پر چلایا گیا تھا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔
اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ نے پیر کو ایک دستاویز شائع کی، جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس میں اس اتھارٹی کی مکمل طاقت کا ڈھانچہ موجود ہے، جس میں اعلیٰ بین الاقوامی سفارت کاروں اور کاروباری شخصیات کو سب سے اوپر اور فلسطینیوں کو سب سے نچلی سطح پر رکھا گیا ہے تاکہ وہ زمینی سطح پر انتظام سنبھالیں۔
جی آئی ٹی اے کا بین الاقوامی بورڈ، جو ابتدا میں مصر یا غزہ کے باہر کسی قریبی جگہ پر قائم ہوگا، کیوں کہ اسرائیل نے زمینی صورتِحال کو افراتفری کا شکار کر دیا ہے، اس بورڈ میں ایک اقوام متحدہ کا عہدیدار، معروف مصری کاروباری افراد اور مسلم اراکین شامل ہو سکتے ہیں تاکہ اس کی ساکھ قائم کی جا سکے۔
اطلاعات کے مطابق اس کے پاس ایک ایگزیکٹو سیکریٹریٹ ہوگا، جس کے ماتحت 5 کمشنر کام کریں گے تاکہ انسانی امور، تعمیر نو، قانون سازی، سیکیورٹی نگرانی، اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے ساتھ تعاون کی نگرانی کی جائے، پی اے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اصلاحات کرے تاکہ مستقبل میں کسی غیر اعلانیہ وقت پر اسے حکمرانی کی ذمہ داری سونپی جا سکے۔
ان کے تحت ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹک اتھارٹی ہوگی، جسے بورڈ تعینات کرے گا تاکہ زمینی سطح پر کچھ عمل درآمد کر سکے، جب کہ ایک کثیر القومی استحکام فورس سرحدی گزرگاہوں، غزہ کے ساحل اور حفاظتی زونز کا کنٹرول سنبھالے گی، جو فی الحال اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔
اس دوران نیتن یاہو اور دیگر اصرار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کو اس محاصرے والے علاقے پر سیکیورٹی کنٹرول حاصل رہے گا۔
جی آئی ٹی اے کے لیے پہلے سال میں 9 کروڑ ڈالر کا انتظامی بجٹ رکھا گیا ہے، جو دوسرے سال میں بڑھ کر 13 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور تیسرے سال میں 16 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ہو جائے گا، ان اعداد و شمار میں تعمیر نو اور انسانی امداد جیسے بڑے اخراجات شامل نہیں ہیں۔











لائیو ٹی وی