سیالکوٹ: احمدی کمیونٹی پر حملے کے الزام میں متعدد افراد کیخلاف مقدمہ درج

شائع September 29, 2025
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سیالکوٹ پولیس نے احمدی کمیونٹی کے ارکان پر حملے اور ان کی جائیدادوں کو نقصان پہنچانے کے الزام میں متعدد افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیں، یہ واقعہ اتوار کی شب پیش آیا۔

فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر)، جس کی ایک کاپی ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے، تھانہ موترہ میں سب انسپکٹر عامر علی سندھو کی مدعیت میں درج کی گئی۔

ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 395 (ڈکیتی کی سزا)، 353 (سرکاری ملازم کو اس کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ طاقت کا استعمال)، 436 (گھر کو آگ یا دھماکا خیز مواد سے نقصان پہنچانا)، 153-اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 295-اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کسی مذہبی طبقے کے جذبات کو مجروح کرنا)، 324 (قتل کی کوشش)، 148 (ہتھیاروں کے ساتھ بلوہ) اور 149 (غیر قانونی اجتماع کا ہر رکن مشترکہ جرم کا مرتکب) شامل کی گئی ہیں، جبکہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق مدعی نے کہا کہ وہ اور دیگر پولیس اہلکار اتوار کو بھالووالی چوک میں سیکیورٹی انتظامات کی نگرانی کر رہے تھے کہ شام تقریباً آٹھ بجے اطلاع ملی کہ پیرو چک گاؤں میں کچھ لوگ احمدی کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلا کر بڑی تعداد میں ہجوم جمع کر رہے ہیں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

مدعی کے مطابق جب وہ موقع پر پہنچے تو تقریباً 200 سے 250 لوگ ہتھیاروں اور ڈنڈوں سے لیس موجود تھے، پولیس کو دیکھتے ہی انہوں نے دو اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا اور پولیس پر حملہ آور ہوگئے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی تعداد کم ہونے کے باعث فوری طور پر ہجوم کو قابو کرنا ممکن نہ تھا، جس پر کنٹرول روم سے رابطہ کیا گیا اور مزید نفری طلب کی گئی، واقعے کے مقام پر رہائشی خوفزدہ تھے اور صورت حال شدید کشیدہ تھی۔

ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ 21 ستمبر کو گاؤں میں احمدی کمیونٹی کی ایک خاتون کا انتقال ہوا تھا، جن کی تدفین کی اجازت نہیں دی گئی، اس دوران مذہب کی بنیاد پر نفرت اور دشمنی کو ہوا دی گئی جس سے امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی۔

مدعی نے بتایا کہ اس دوران پانچ افراد زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا، ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ زخمی اور متاثرہ افراد کو شامل تفتیش کرنے کے بعد مزید حقائق سامنے آئیں گے۔

ایف آئی آر میں مشتبہ افراد پر احمدی کمیونٹی کے خلاف جان بوجھ کر دشمنی پھیلانے، ان کے جذبات مجروح کرنے، ان کی املاک کو آگ لگانے، لوٹ مار کرنے، انہیں قتل کرنے کی نیت سے فائرنگ کرنے، پولیس پارٹی پر حملہ کرنے اور ان سے اسلحہ چھیننے اور علاقے کے رہائشیوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

مدعی نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک تفتیشی افسر مقرر کرنے کی درخواست کی۔

دوسری جانب، سیالکوٹ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) فیصل شہزاد نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ واقعے میں 8 افراد زخمی ہوئے، جن میں پانچ احمدی کمیونٹی کے اور تین تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ احمدی کمیونٹی کے زخمیوں میں سے ایک کو گولی لگی تھی، تاہم تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

ڈی پی او کے مطابق معاملہ اس وقت شروع ہوا، جب 1945 میں قائم کردہ قبرستان میں احمدی خاتون کی تدفین کی اجازت نہیں دی گئی، بعدازاں احمدی کمیونٹی کے کچھ افراد نے دیگر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، اس سلسلے میں دو مقدمات درج ہوئے، ایک احمدی کمیونٹی کے افراد کے خلاف اور دوسرا ان کے مخالفین کے خلاف۔

انہوں نے کہا کہ احمدی کمیونٹی کے کچھ افراد نے ایک اور شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد ٹی ایل پی کے ارکان نے ان کے دو سے تین فارم ہاؤسز اور ایک دکان کو آگ لگا دی اور احمدی کمیونٹی کے افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔

ڈی پی او نے کہا کہ ’ اینٹی رائٹ پولیس کو طلب کر لیا گیا ہے اور اب صورت حال معمول پر ہے’ اور اس واقعے میں ٹی ایل پی کے ارکان کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے گا۔

ایک ماہ کے دوران پیش ہونے والا یہ دوسرا واقعہ ہے، اس سے قبل اگست میں فیصل آباد میں احمدی کمیونٹی کی دو عبادت گاہوں کو آگ لگانے پر 300 افراد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

ایف آئی آرز کے مطابق، ہجوم کی قیادت ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈر حافظ رفاقت نے کی تھی جو ڈنڈوں اور اینٹوں سے مسلح تھا، مزاحمت کرنے والے کمیونٹی کے افراد کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس سے کئی زخمی ہوگئے تھے۔

اس سے قبل جولائی میں ڈسکہ میں پولیس اور احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ پر حملے کے الزام میں 51 افراد گرفتار اور 142 کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025