’ملکی سیاست اتنی ماند پڑ چکی ہے کہ میڈیا کے پاس بحث کرنے کے لیے موضوعات نہیں‘
دنیا میں بہت سی پیش رفت سامنے آرہی ہیں لیکن ہمارے ملک میں بات کرنے کے لیے بہت ہی کم خبریں ہیں۔ پاکستان کی ناقص سیاست جو ایک دن بھی سکون سے گزرنے دینے کی روادار نہیں تھی، اب کافی ماند پڑ چکی ہے جس کی وجہ سے ہم میں بہت سے لوگ خارجہ پالیسی اور مشرقِ وسطیٰ پر بحث کرنے پر مجبور ہیں۔ تو ہم اس لیے بات نہیں کررہے ورنہ ہم بات کرنا چاہتے تھے۔ قیاس آرائیوں پر بھروسہ نہ کریں۔
تاہم یہ ٹیلی ویژن ہی نہیں بلکہ سیاست میں بھی لوگوں کے پاس آپشنز ختم ہوچکے ہیں۔ اگر ان دنوں پاکستان میں کسی کو سیاسی منظرنامے کو بیان کرنا ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جیسے بےسر مرغیوں کا ایک جھنڈ ہے جو شور مچاتے ہوئے مسلسل ادھر اُدھر دوڑ رہا ہے۔
ان میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں کہ کیا کرنا ہے یعنی نہ اقتدار میں بیٹھی حکومت اور نہ اپوزیشن جانتی ہے۔ ان کا واحد مقصد صرف اپنی بقا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت پر غور کریں جو اسٹیبلشمنٹ اور اپنے حامیوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ جماعت کے دوسرے درجے کے زیادہ تر رہنما اپنے حامیوں کی پروا کرنے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں (جبکہ وہ دونوں سے ہی خوفزدہ ہیں)۔ اگرچہ یہ بتانا مشکل ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے لیکن کارکنان اور حامیوں کا نقطہ نظر پشاور کے حالیہ بے ہنگم جلسے سے عیاں تھا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی تقریر بھی ان کی سابقہ تقاریر کی طرح نہ تھی۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے گبر سنگھ کے فعل کے زعم میں اب کوئی نہیں آنے والا ہے۔ ان کی (اور دیگر) تقریر کے دوران آوزایں کسی گئیں جبکہ جوتے لہراتے ہوئے کارکنان کی طرف سے ان کا استقبال کیا گیا جس کے بعد پیر کی صبح علی امین گنڈا پور کو ملاقات کی امید لے کر اڈیالہ جیل کی طرف بھاگنا پڑا۔ حالانکہ وہ اور ان کے ساتھی بار بار اصرار کرتے رہے لیکن ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
اب کسی میں بھی یہ شک باقی نہیں رہا کہ ان کی ’وزارتِ اعلیٰ‘ اب پی ٹی آئی پر کم اور حقیقی اقتدار کے مالکان پر زیادہ منحصر ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر وہ اقتدار میں ہیں تو اڈیالہ میں بیٹھے آدمی کی وجہ سے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو یقین ہے کہ عمران خان ابھی مزید کچھ عرصہ اڈیالہ کے ہی مقیم رہیں گے۔
لیکن اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ صوبے کے عوام پارٹی قیادت اور عسکریت پسندی کے مسئلے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں، اس توازن کو برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہر کوئی اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ یہ معاملہ آخر کب تک چلتا ہے۔ اسی دوران خیبرپختونخوا حکومت میں اور اسلام آباد کی پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے اراکین گویا دائرے کی صورت میں گھومتے پھر رہے ہیں لیکن خود کو تھکانے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔
لیکن ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ پی ٹی آئی کا معمول کا ڈراما اس کے مقابلے میں کچھ نہیں تھا جو مسلم لیگ (ن) نے نیویارک میں کیا۔ اگر گڑ بڑ نہ کی جاتی تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اقوام متحدہ میں ملاقات اور پھر اوول آفس میں ون آن ون بات چیت ایک بہت اچھا موقع ثابت ہوتا لیکن مسلم لیگ (ن) نے غلطی کی۔ پارٹی کے پرانے ممبران نے سوشل میڈیا پر ایک چھوٹے سے معاملے کو اٹھایا اور اسے مین اسٹریم میڈیا میں ایک بہت بڑے تنازعے میں تبدیل کردیا۔
برطانوی نژاد پاکستانی خاتون شمع جونیجو کی پاکستانی وفد میں موجودگی نے سوشل میڈیا پر جھڑپوں کے درمیان ایک اور تنازع کھڑا کیا یہاں تک کہ وزیر دفاع نے ٹویٹ کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ ان خاتون کو نہیں جانتے یا نہیں جانتے کہ تقریر کے دوران ان کے پیچھے کس نے خاتون کو بٹھایا۔ اس وضاحت سے لگا جیسے عموماً وزرا کو پتا ہوتا ہے کہ عوامی اجتماعات میں ان کے پیچھے کون کھڑا کون بیٹھا ہے۔
ان کی ٹویٹ نے دفتر خارجہ کی نیندیں اڑا دیں جسے نائب وزیراعظم خود چلاتے ہیں جبکہ دفتر خارجہ نے شمع جونیجو کی شمولیت سے خود کو دور کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ اور زبردست! مین اسٹریم میڈیا کو ان تمام معاملات کے درمیان رپورٹ کرنے کے لیے ایک اسٹوری مل گئی جس پر وہ بات نہیں کرسکتے۔
شمع جونیجو پُراعتماد ہیں کہ وہ وزیر اعظم کی وجہ سے وفد کا حصہ ہیں جبکہ نہ وزرا نہ دفتر خارجہ نے اس بات کی تردید کی یا وزیر اعظم سے اس معاملے پر سوال کیا۔ یہ کوئی معما نہیں ہے لیکن چلیے دکھاوا ہی کرلیتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بھید ہے کیونکہ اس طرح دیگر مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکتی ہے جیسے یہ کہ مغربی کنارے کو الگ کرکے غزہ کے مسئلے کا حل کیسے نکلے گا یا یہ فکر کہ آخر چند پاکستانی حکومتی عہدیداروں کو وہاں انٹرویوز دینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کس کا تھا۔
لیکن ایسے سوالات نہیں پوچھتے جو کسی کو بے چین کریں تو چلیے اقوامِ متحدہ میں موجود اسی خاتون پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ہم ان دنوں یہی تو کرتے ہیں کہ واضح سوالات پوچھتے ہیں اور یہ دکھاوا کرتے ہیں کہ جیسے ان سوالات کے جواب ان کے پاس نہیں۔
تاہم یہ ہفتے کی واحد (غیر) سیاسی خبریں نہیں تھیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کا عوامی جھگڑا بھی اہم تھا۔ شکر ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری سامنے آئے ورنہ میڈیا گھنٹوں شرجیل میمن اور عظمیٰ بخاری کے بیانات پر بات کرنے پر مجبور ہوتا کیونکہ یہ دو ایسے افراد ہین جن کی پریس کانفرنسسز نیٹ فلکس کی تخلیق کردہ مزاحیہ رومانوی فلموں کی طرح دیکھنا مشکل ہیں۔
لیکن پھر سیاسی میراث کے اصل دعوے دار ہمارے بچاؤ کے لیے آئے اور ہمیں ان کے درمیان فرضی لڑائی کا موضوع مل گیا جس پر بات کرسکیں۔
لوگ سوچ رہے تھے کہ ان دونوں کے درمیان لفظوں کی جنگ کتنی سنجیدہ تھی لیکن اس کا صرف ایک جواب نہیں تھا۔ اختتام اتنا ہی واضح تھا جتنا کہ ایک عام پاکستانی ڈرامے میں ایک بری ساس اور ایک معصوم بہو کا انجام دکھایا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی لڑائی مختلف نہیں ہے۔ طاقتور لوگوں کی طرف سے تیار کیا گیا یہ سیٹ اپ جہاں ہر کسی کو اقتدار میں رہنے اور اس کے مزے لینے کی اجازت ہے، صرف سیلاب میں بدانتظامی کے حوالے سے اختلافات کی وجہ سے نہیں ٹوٹے گا یا اس وجہ سے بھی نہیں ٹوٹے گا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پی پی پی کو مشاورت میں شامل نہیں کررہی۔ پنجاب میں پی پی پی کے چند اراکین شکایت کریں گے اور سندھ میں ان کے سینئرز بہانہ کریں گے کہ جیسے وہ ان سے متفق ہیں۔
حکومت چھوڑنا کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ ان کے ووٹرز احمق ہیں۔ اس لیے وہ ایسے الفاظ میں ایک دوسرے سے بحث کرتے ہیں جیسے وہ واقعی اہم مسائل کی پروا کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی دکھاوا کرے گی کہ جیسے اسے عوام کی بہت پروا ہے اور وہ ان کے لیے فکر مند ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) یہ تاثر دے رہی ہے کہ مریم نواز اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں کہ پی پی پی کو پنجاب میں خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ تو بنیادی طور پر یہ سب عوام کے لیے ڈراما کررہے ہیں۔ ان کے لیے خیال کی دنیا میں رہنا ہی حل ہے یعنی کم از کم ٹیلی ویژن پر تو وہ لوگوں کو یہی یقین دلانا چاہتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی