عمران خان سے ملاقات میں علی امین گنڈاپور نے اپنے دل کے شکوے بیان کیے
سرکاری طور پر سینٹرل جیل راولپنڈی کہلائی جانے والی اڈیالہ جیل، وفاقی دارالحکومت میں خیبر پختونخوا ہاؤس سے تقریباً 45 منٹ کی مسافت پر ہے، جہاں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اپنی اسلام آباد آمد کے دوران اکثر قیام کرتے ہیں، لیکن اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے اسی جیل میں قید بانی عمران خان سے ملاقات کسی نعمت سے کم نہیں تھی، یہ ملاقات کئی ماہ کے انتظار اور سپریم کورٹ سے بارہا درخواستوں کے بعد ہوئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق علی امین گنڈا پور نے 6 ماہ تک ایک طوفان کا سامنا کیا، اور یہ طوفان کمزور اپوزیشن کی طرف سے نہیں تھا، جس نے سیاسی چیلنج دینے کی سکت ہی کھو دی تھی، بلکہ اپنی ہی جماعت کی جانب سے انہیں اس کا سامنا کرنا پڑا، جس کے پیچھے ایک بے لگام اوورسیز سوشل میڈیا بریگیڈ کھڑی تھی، جو ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہی تھی۔
انہیں ’غدار‘، ’کمپرومائزڈ‘ اور ’اسٹیبلشمنٹ کا آدمی‘ کہا گیا، شور اس قدر بڑھا کہ ان کی اپنی کابینہ کے کچھ ارکان بھی ان کی تبدیلی کی باتیں کرنے لگے۔
یہ کوئی راز نہیں تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کو خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کبھی پسند نہیں تھے، مگر اڈیالہ جیل کے باہر ان کی میڈیا گفتگو نے نہ صرف علی امین کی سیاسی مشکلات بڑھائیں بلکہ ان کے ناقدین کو مزید جری بنا دیا۔
علی امین گنڈاپور نے اپنے قید پارٹی لیڈر سے ملاقات میں کہا کہ ’میں نے کبھی خود کو اتنا کمزور محسوس نہیں کیا‘۔
مہینوں تک، وہ اس لیے تنقید کا نشانہ بنتے رہے کہ انہوں نے چیئرمین کے اس حکم کو نہیں مانا کہ صوبائی بجٹ پیش نہ کریں، افغان طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرکے صوبے میں دہشت گردی ختم کریں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فوجی آپریشنز اور ڈرون حملوں کی حمایت نہ کریں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے کلاچی سے تعلق رکھنے والے یہ سردار خیبر پختونخوا کے اٹھارہویں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کبھی ہموار سفر نہیں کر سکے، ابتدائی 8 ماہ تو ایک احتجاجی مارچ کے بعد دوسرا لانچ کرنے میں گزر گئے، کیوں کہ جماعت طاقت ور ادارے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی، صوبے میں حکمرانی اُس وقت مکمل طور پر پسِ پشت ڈال دی گئی تھی۔
لیکن ان کے سیاسی مسائل نومبر میں ڈی چوک کے واقعے کے بعد مزید گھمبیر ہوگئے، اور اس کے بعد حالات نے ان کے لیے مشکلات بڑھا دیں، سب سے پہلے معدنیات کے بل کی ناکام کوشش، جس کے بارے میں پارٹی کے سوشل میڈیا کارکنوں نے دعویٰ کیا کہ یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر لایا جا رہا ہے، تاہم جب قید لیڈر عمران خان نے اپنی مخالفت کا پیغام دیا تو وزیراعلیٰ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
پھر آیا بجٹ، اڈیالہ سے حکم آیا کہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے بانی سے مشورہ کیا جائے، مسودے کو ان تک پہنچانے اور منظوری لینے کی کوشش کی گئی، مگر یہ کامیاب نہیں ہو سکا، پھر دوسرا حکم آیا کہ ’بجٹ منظور نہ کرو‘۔
اس پر خود کو ’پنڈی بوائے‘ کہنے والے وزیراعلیٰ کے مشیر بیرسٹر سیف کو بھیجا گیا تاکہ وہ قید لیڈر کو سمجھائیں کہ بجٹ منظور نہ کرنا آئینی طور پر حکومت کو ہی گرا دے گا، اس بار خان صاحب مان گئے۔
لیکن جیسے ہی صوبے کی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال نے فوجی کارروائی کا تقاضا کیا، گنڈا پور پھر سے تنقید کی زد میں آ گئے، ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں نے مسئلہ اور بڑھا دیا۔
اسی دوران پارٹی کے معاملات پر لیڈر کی رائے پہنچانے والی ایک ہی قابلِ بھروسہ آواز تھی، اور وہ عمران خان کی بہن، علیمہ خان تھیں، وہ اور ان کے 2 بہن بھائی ہی ملاقات کی اجازت رکھتے تھے۔
گنڈاپور کا دعویٰ تھا کہ انہیں 2 خواتین نیچا دکھا رہی ہیں، ایک جو پارٹی چلانے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری جو دراصل پارٹی چلا رہی ہے، اور ایک فوجی اسٹیبلشمنٹ جو اپنے تقاضوں کے تحت چل رہی ہے۔
سیاسی طوفان زور پکڑ رہا تھا، اور ایسا لگ رہا تھا کہ وزیراعلیٰ کا وقت پورا ہو چکا ہے، جب عمران خان کی مایوسی، خصوصاً صوبے میں فوجی آپریشنز نہ روک پانے پر ان پر کھل کر ظاہر ہوئی۔
اگرچہ گنڈا پور کا دعویٰ تھا کہ وہ اوورسیز سوشل میڈیا ٹرولز کی پرواہ نہیں کرتے، لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ علیمہ خان ہر ملاقات کے بعد میڈیا میں کیا کہتی ہیں، کیوں کہ بہن ہونے کے ناتے ان کی بات کو ’حکم‘ سمجھا جاتا تھا۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مطابق ’یہ مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ ہمارے پیغامات خان صاحب تک نہیں پہنچ رہے، انہیں باہر کی صورتحال کا علم ہی نہیں، انہیں گمراہ کیا جا رہا ہے اور ان کی بات کو فلٹر، سنسر اور مسخ کرکے آگے پہنچایا جا رہا ہے‘۔
مزید توہین یہ تھی کہ پارٹی چیئرمین کی جانب سے کوئی تردید بھی سامنے نہیں آ رہی تھی۔
جب ہر طرف سے دباؤ بڑھ گیا، تو گنڈاپور کے پاس آخری امید اپنے قید لیڈر سے بالمشافہ ملاقات تھی، ان کے مطابق، اس ملاقات میں انہوں نے علیمہ خان کی مبینہ سازشوں اور پارٹی معاملات میں کھلی مداخلت کے ’ثبوت‘ رکھے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں نے وہ ویڈیو علیمہ خان کی میڈیا گفتگو کے بعد ہی بنائی تھی، جو کچھ کہا، ثبوت کے ساتھ کہا۔
لیڈر سے ملاقات کے بعد، گنڈا پور نے اعتراف کیا کہ وہ پچھلے 6 ماہ کے مقابلے میں زیادہ پُرسکون اور مطمئن ہیں۔
انہوں نے بعد میں اپنی کابینہ کے 2 وزرا کو فون کرکے کہا کہ پارٹی چیئرمین چاہتے ہیں کہ وہ مستعفی ہوں، بدھ کو مزید ردوبدل بھی ہوا، اور کرپشن کے الزامات میں گھِرے وزرا کو یا تو فارغ کر دیا گیا یا غیر اہم محکمے دے دیے گئے۔
فی الحال، وزیراعلیٰ کے قریبی لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالفین پر سبقت حاصل کر لی ہے، لیکن موقع بہت چھوٹا ہے۔
انہیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہوگا اور درست فیصلے کرنے ہوں گے، اس سے پہلے کہ سادہ دل بانی چیئرمین عمران خان کا موڈ پھر بدل جائے۔











لائیو ٹی وی