جاپان کی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیراعظم بنے کی راہ ہموار
جاپان کی حکمران جماعت نے سخت گیر قدامت پسند سانائے تاکائچی کو اپنا سربراہ منتخب کرلیا، جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی، یہ فیصلہ سرمایہ کاروں اور ہمسایہ ممالک کے لیے بھی چونکا دینے والا سمجھا جا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جنگ عظیم دوم کے بعد کے بیشتر عرصے سے جاپان پر حکمرانی کرنے والی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے 64 سالہ سانائے تاکائچی کو اس مقصد کے لیے منتخب کیا تاکہ عوامی اعتماد بحال کیا جا سکے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ناراض ہو کر حزبِ اختلاف کی ان جماعتوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جو مراعات اور تارکین وطن پر پابندیوں کا وعدہ کر رہی ہیں۔
پارلیمان میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے رائے شماری 15 اکتوبر کو متوقع ہے، حکمران اتحاد کے پاس سب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باعث سانائے تاکائچی کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
پانچ ایل ڈی پی امیدواروں میں واحد خاتون ہونے کے ناطے سانائے تاکائچی نے نسبتاً معتدل امیدوار 44 سالہ شنجیرو کوئزومی کو شکست دی، جو جاپان کا سب سے کم عمر جدید رہنما بننے کی کوشش کر رہے تھے۔
معاشی سلامتی اور داخلی امور کی سابق وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے والی سانائے تاکائچی کا مالیاتی ایجنڈا دنیا کی چوتھی بڑی معیشت میں توسیعی نوعیت کا ہے، جو بحران میں جماعت کی قیادت سنبھال رہی ہیں۔
متعدد دیگر جماعتیں بتدریج ووٹروں، خاص طور پر نوجوانوں کو ایل ڈی پی سے دور کرتی جا رہی ہیں، جن میں توسیع پسند ’ڈیموکریٹک پارٹی فار دی پیپل‘ اور تارکین وطن مخالف ’سانسیتو‘ شامل ہیں۔
حکمران اتحاد نے شگیرو اشیبا کی قیادت میں دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت کھو دی تھی، جس کے نتیجے میں شیگرو اشیبا کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
سانائے تاکائچی نے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے قبل اپنی تقریر میں کہا کہ ’حال ہی میں مجھے ملک بھر سے یہ آوازیں سننے کو مل رہی ہیں کہ ہم نہیں جانتے اب ایل ڈی پی کس چیز کی نمائندگی کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی احساسِ مجھے آگے لے آیا، میں لوگوں کی روزمرہ زندگی اور مستقبل سے متعلق بے چینی کو امید میں بدلنا چاہتی ہوں۔’
سانائے تاکائچی کہتی ہیں کہ ان کی ہیرو برطانیہ کی پہلی خاتون وزیراعظم مارگریٹ تھیچر ہیں، جو کوئزومی کے مقابلے میں زیادہ واضح اور سخت تبدیلی کی علامت ہیں اور ممکنہ طور پر زیادہ غیر متوقع بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔

وہ سابق وزیراعظم شینزو ابے کی ’ابے نومکس‘ حکمتِ عملی کی حامی ہیں، جس کا مقصد معیشت کو بڑے اخراجات اور نرم مالیاتی پالیسی کے ذریعے سہارا دینا تھا، وہ اس سے قبل جاپان کے مرکزی بینک (بی او جے) کی جانب سے شرح سود میں اضافے پر تنقید بھی کر چکی ہیں۔
اوکاسان سیکیورٹیز ٹوکیو کے چیف بانڈ اسٹریٹجسٹ ناؤیا ہاسیگاوا نے کہا کہ سانائے تاکائچی کے انتخاب سے اس مہینے بی او جے کے شرح سود بڑھانے کے امکانات کمزور پڑ گئے ہیں۔
سانائے تاکائچی نے اس امکان کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اس سرمایہ کاری معاہدے پر دوبارہ بات کر سکتی ہیں، جس کے تحت جاپانی ٹیکس دہندگان کی ضمانت سے کی جانے والی سرمایہ کاری کے بدلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت ٹیکسوں میں کمی کی تھی۔
جاپان میں امریکی سفیر جارج گلاس نے سانائے تاکائچی کو مبارکباد دی اور ایکس پر لکھا کہ وہ جاپان۔امریکا شراکت داری کو ’ہر محاذ پر‘ مضبوط کرنے کے منتظر ہیں۔











لائیو ٹی وی