کرپشن کے الزامات سے لے کر علیمہ خان سے چپقلش تک، گنڈاپور کے دور حکومت کے پانچ بڑے تنازعات
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس بات کی تصدیق کی کہ پارٹی کے بانی عمران خان نے انہیں ایسا کرنے کی ہدایت دی ہے اور ساتھ ہی سہیل آفریدی کو صوبے کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور جمعرات کو اپنا استعفیٰ گورنر کو بھجوائیں گے, یاد رہے کہ گنڈاپور نے 3 مارچ 2024 کو اس وقت کے گورنر حاجی غلام علی سے حلف لے کر وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔
ان کا دورِ حکومت تنازعات سے خالی نہیں رہا، کبھی وفاقی حکومت کے ساتھ اختلافات تو کبھی اپنی ہی پارٹی کی اندرونی تنقید۔
پہلے دن سے ہی گنڈاپور کو سیاست اور ریاستی حقیقتوں کے درمیان ایک نازک توازن قائم رکھنا پڑا ، خیبر پختونخوا مالی طور پر وفاق پر انحصار کرتا ہے، لہٰذا انہیں وفاقی حکومت اور طاقت کے مراکز سے معاملات چلانے پڑے۔
کرپشن کے الزامات
گنڈاپور کی حکومت کے پہلے ہی سال سے کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔
اگست 2024 میں عمران خان نے جیل سے ایک سخت پیغام دیا تھا کہ صوبائی حکومت کے وزرا کو اپنے محکموں میں بدعنوانی اور ناقص حکمرانی پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔
اس کے بعد سابق وزیر مواصلات و تعمیرات شکیل احمد خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
ستمبر 2024 میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے الزام لگایا تھا کہ علی امین گنڈاپور صوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہیں۔
مئی 2025 میں نیب نے انکشاف کیا تھا کہ اپر کوہستان میں محکمہ مواصلات و تعمیرات کے افسران نے ضلعی اکاؤنٹس آفس اور نیشنل بینک کے اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت سے 30 ارب روپے سے زائد کے جعلی منصوبے بنا کر قومی خزانے سے رقم نکلوائی۔
افغانستان سے براہِ راست رابطے
گنڈاپور کی پالیسی کا ایک اور پہلو جو اکثر وفاقی حکومت سے ٹکراؤ کا باعث بنا، وہ عمران خان کی ہدایت پر عبوری افغان طالبان حکومت سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کی کوشش تھی۔
ستمبر 2024 میں گنڈاپور نے کہا تھا کہ انہوں نے امن مذاکرات کے لیے افغان حکومت سے بات کرنے کی اجازت مانگی ہے، اور اگر اجازت نہ ملی تو وہ خود اقدام کریں گے۔
وفاقی حکومت نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ غیر ملکی حکومتوں سے مذاکرات کرنا صرف وفاق کا اختیار ہے۔
جنوری 2025 میں گنڈاپور نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوطرفہ امور پر بات چیت کے لیے افغانستان میں ایک وفد بھیجنے کا منصوبہ رکھتے ہیں، اس اقدام پر وفاقی وزیر امیر مقام نے واضح کیا تھا کہ افغانستان سے مذاکرات صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔
بعد ازاں، مارچ میں گنڈاپور نے کہا کہ وہ وفاق سے جِرگے کے لیے منظوری کے منتظر ہیں اور انکشاف کیا کہ ان کا پاسپورٹ 9 مئی 2023 سے بلاک ہے، اس لیے وہ افغانستان نہیں جا سکتے۔
پی ٹی آئی احتجاج میں کردار
گنڈاپور کو اکثر اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا، خاص طور پر عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک میں ان کے کردار پر۔
اکتوبر 2024 میں اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران تصادم ہوا، علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچے تھے، مگر بعد ازاں کے پی ہاؤس چلے گئے، جس پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں نے ان پر کارکنوں کو چھوڑنے کا الزام لگایا تھا۔
بعد میں ان کی اچانک واپسی اور اسمبلی میں ظہور پر حکومتی وزرا نے کہا تھا کہ انہوں نے ’ ڈرامہ رچایا’۔
اسی طرح نومبر کے احتجاج میں بھی ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ کارکنوں کو دھرنے میں چھوڑ کر چلے گئے۔
یہی اختلافات پارٹی کے اندرونی دھڑوں میں شدید کھچاؤ کا باعث بنے، بشریٰ بی بی نے بھی گنڈاپور کو ڈی چوک پر چھوڑنے پر تنقید کی تھی، جس کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں ’ غدار’ اور ’ اسٹیبلشمنٹ کا بندہ’ کہا جانے لگا تھا۔
علیمہ خانم سے تنازع
تازہ ترین تنازع عمران خان کی بہن علیمہ خانم کے ساتھ اختلافات کے بعد سامنے آیا، 29 ستمبر کو گنڈاپور نے جیل میں عمران سے ملاقات کی، اور اگلے ہی دن انہوں نے علیمہ خانم پر الزام لگایا کہ وہ پارٹی میں تقسیم پیدا کر رہی ہیں اور انہیں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی ) کی مدد حاصل ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ علیمہ خانم بعض وی لاگرز کے ذریعے پارٹی رہنماؤں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں، اس بیان کے بعد پارٹی میں مزید اختلافات بڑھ گئے تھے۔
6 ماہ تک گنڈاپور کو اپنی ہی پارٹی کے اندر سے زبردست مخالفت کا سامنا رہا تھا، انہیں ’ غدار’ ، ’کمپرومائزڈ‘ اور ’ اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ’ کہا گیا۔
پارٹی پالیسی کے خلاف اقدامات
ڈیرہ اسمٰعیل خان کے کلچی سے تعلق رکھنے والے سردار گنڈاپور کے لیے وزارتِ اعلیٰ آسان ثابت نہیں ہوئی۔ پہلے آٹھ ماہ وہ عمران خان کے احکامات پر احتجاجی مارچ کرتے رہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھایا جا سکے، اس دوران گورننس پیچھے رہ گئی۔
جب انہوں نے پارٹی کے برعکس پالیسی اپنائی، مثلاً فوجی آپریشنز کی حمایت یا قانون سازی پر رضامندی، تو پارٹی کے کارکنوں نے ان پر تنقید کی۔
مائنز اینڈ منرلز بل کے موقع پر سوشل میڈیا نے الزام لگایا کہ یہ بل ’ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے’ پر ہے، اور عمران خان نے خود اس کی مخالفت کی۔
بعد میں بجٹ کے موقع پر عمران نے جیل سے پیغام دیا کہ بجٹ پیش نہ کیا جائے، مگر وزیراعلیٰ نے موقف اپنایا کہ بجٹ پاس نہ ہوا تو حکومت گر جائے گی، جس پر عمران خان نے بالآخر اجازت دی۔
جب صوبے میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع ہوئیں تو علی امین گنڈاپور کو ایک بار پھر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر ان ڈرون حملوں پر جن میں عام شہری جاں بحق ہوئے۔
بالآخر عمران خان کی بڑھتی ہوئی مایوسی اور ناراضی نے اس وقت گنڈاپور کے اقتدار کے اختتام کی راہ ہموار کر دی، جب انہیں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا گیا کہ وہ ’ فوجی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔’
یوں 19 ماہ کے ہنگامہ خیز دور کے بعد علی امین گنڈاپور کا وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ ایک ایسے وقت آیا جب وہ نہ صرف وفاق، بلکہ اپنی ہی پارٹی کے اندرونی بحرانوں سے بھی نمٹنے میں ناکام نظر آ رہے تھے۔













لائیو ٹی وی