اداریہ: علی امین گنڈاپور کی برطرفی کیا پی ٹی آئی کے لیے ’نیا آغاز‘ ثابت ہوگی؟

شائع October 9, 2025

سیاست میں خاموشی کا طویل دور شاید کسی نئے طوفان سے پہلے کا سکون تھا۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قید بانی عمران خان سے ان کی بہن کے بارے میں شکایت جس میں انہوں نے مبینہ طور پر ان پر ایک خفیہ ایجنسی کی مدد سے پارٹی کو ’ہائی جیک‘ کرنے کی کوشش کا الزام لگایا تھا، کے تقریباً ایک ہفتے بعد انہیں صوبائی وزیر اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔

علی امین گنڈاپور نے کئی ماہ بعد جیل میں قید سابق وزیر اعظم کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں علیمہ خان کے بارے میں اپنی شکایات کا اظہار کیا تھا، بنیادی طور پر اس پر پارٹی میں ’تقسیم‘ پیدا کرنے اور لوگوں کو تنقید کرنے سے روکنے کے لیے کام نہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

یاد رہے کہ یہ ملاقات پی ٹی آئی کے 27 ستمبر کو پشاور میں ہونے والے سیاسی جلسے کے فوراً بعد ہوئی تھی جس کے دوران علی امین گنڈاپور کے ہجوم سے خطاب کے دوران پارٹی کارکنان نے شدید احتجاج کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ نے اس توہین کو دل پر لے لیا ہے۔

یہ واضح ہوتا جا رہا تھا کہ عمران خان کو جلد ہی علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا اور اگرچہ انہوں نے انہیں آپس میں لڑنے سے منع کر دیا تھا، لیکن آخرکار لگتا یہی ہے کہ انہیں احساس ہوگیا تھا کہ خون پانی سے زیادہ گاڑھا ہوتا ہے۔

معلوم نہیں کہ علی امین گنڈاپور اس برطرفی کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت اور ریاست کے خلاف زیادہ جارحانہ مؤقف اختیار نہ کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے مسلسل دباؤ کا شکار ہیں۔ عمران خان کی سزائے قید بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ دباؤ بھی بڑھتا گیا۔

اس عہدے کے لیے پارٹی کے نو نامزد امیدوار سہیل آفریدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ تند مزاج آدمی ہیں لیکن وہ اس عہدے پر کتنا کام کر سکتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ناقدین نے کبھی بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ سرکاری عہدے، اکثر اپنے ساتھ بھاری زنجیریں بھی لاتے ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا چاہیے کہ کمان کی تبدیلی پارٹی کے لیے کس پیش رفت کا سبب بنے گی۔

ایک چیز جو بظاہر نہیں بدلی ہے، وہ مسلسل کشمکش ہے جو پی ٹی آئی کے سربراہ کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ اور اس کی وجہ سے اب بھی پارٹی کے ہر کام میں افراتفری نظر آتی ہے۔ ایک بڑا فیصلہ اچانک کیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بہت کم لوگ اس کی وجہ جانتے ہیں کہ کیوں ایسا کیا گیا۔

پارٹی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے علی امین گنڈاپور کی حکومت کی جانب سے عمران خان کے وژن کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی کے بعد اسے ایک ’نئے آغاز‘ کی امید کے طور پر بیان کیا ہے۔

کچھ لوگ سہیل آفریدی کی نامزدگی کو اس نئی سمت کے اشارے کے طور پر لے رہے ہیں جس کی جانب پی ٹی آئی اپنا رخ کرنے جارہی ہے۔ حال ہی میں پارٹی نے محمود خان اچکزئی اور راجا ناصر عباس کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈران کے لیے نامزد کیا تھا، جسے بہت سے لوگوں نے اشتعال انگیز قرار دیا۔

پی ٹی آئی کے اہم ترین نمائندوں کی فہرست میں سہیل آفریدی کے شامل ہونے کے بعد پارٹی کے حوالے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ سخت گیر مؤقف اختیار کرنے والی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں کیا پیش رفت سامنے آتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025