صوبوں کو شامل کیے بغیر کیا پاکستان کا نیا موسمیاتی اہداف کا منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے؟

شائع October 9, 2025

2016ء میں پاکستان نے اپنا پہلا موسمیاتی ایکشن پلان (جسے قومی سطح پر طے شدہ اہداف یا این ڈی سیز کہا جاتا ہے) جاری کیا، اسے 2021ء میں اپ ڈیٹ کیا گیا اور گزشتہ ماہ پاکستان نے اس کا تیسرا ورژن این ڈی سیز 3.0 پیش کیا ہے۔

اس تازہ ترین منصوبے میں موسمیاتی فنڈنگ کے لیے 565.7 ارب ڈالرز یا 159 کھرب 64 ارب 50 کروڑ روپے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ لیکن پہلے دو منصوبے پر کا کیا جن پر بمشکل کام کیا گیا؟

2021ء اور 2025ء کے تباہ کُن سیلابوں نے ملک کے ہر صوبے کو متاثر کیا اور ظاہر کیا کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے۔ جوں جوں موسمیاتی تبدیلیاں بدتر ہوتی جارہی ہیں، پاکستان کی اس سے نمٹنے کی صلاحیتیں بھی مزید بدتر ہوتی جارہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ یہ آب و ہوا کے منصوبے وفاقی حکومت نے بنائے تھے لیکن ان پر زیادہ تر کام صوبائی سطح پر ہوتا ہے۔

آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اہم شعبہ جات وفاقی حکومت کے نہیں بلکہ صوبوں کے ماتحت آگئے تھے۔ ان شعبوں میں کاشتکاری، پانی کا انتظام، شہر کی منصوبہ بندی، آفات سے نمٹنا، آبپاشی، زمین کا استعمال، جنگلات، بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور تعمیراتی قوانین کا تعین شامل ہیں۔ صوبے موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا صوبوں کو موافق بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلے دو وفاقی این ڈی سیز حکومت کی جانب سے طے کیے گئے تھے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے وفاقی اور صوبائی دونوں محکموں سے بات کی، قومی اہداف طے کیے اور منصوبے موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کا فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کو بھیجے۔ لیکن صوبوں سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنے آب و ہوا کے منصوبے خود بنائیں، یہ معلوم کریں کہ ان پر کیسے عمل درآمد کرنا ہے، درکار رقم کا تخمینہ لگائیں یا اپنے بجٹ کو آب و ہوا کے اہداف کے مطابق طے کریں۔

لہٰذا وفاق نے جو وعدے کیے، وہ درحقیقت صوبوں کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر نہیں کیے گئے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2026ء-2025ء میں صوبوں کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 2 کھرب 86 ارب 90 کروڑ روپے ہے جو وفاقی حکومت کے ترقیاتی بجٹ سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اس رقم کو واضح طور پر موسمیاتی اہداف سے منسلک کیے بغیر خرچ کیا جا رہا ہے۔

ترقیاتی منصوبوں کو انجام دینے والے سرکاری محکموں کو کبھی بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے منظم طریقے سے نمٹنے کے لیے مناسب تربیت نہیں دی گئی۔

یہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان فرق کی مثال ہے۔ 2021ء اور 2025ء کے سیلاب نے ظاہر کیا کہ اگر صوبے ان پر عمل نہیں کرتے ہیں تو وفاقی حکومت کے موسمیاتی عزائم ناکام ثابت ہوں گے۔ 2016ء اور 2021ء کے آب و ہوا کے منصوبوں میں موسمیاتی تبدیلی سے موافق زراعت، نکاسی آب کا بہتر نظام اور تباہی کی مضبوط تیاری جیسے عوامل کا وعدہ کیا گیا تھا۔

لیکن جب سیلاب آیا تو یہ واضح تھا کہ صوبے آفت سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مثال کے طور پر سندھ کے محکمہ زراعت نے ایسی فصلوں کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی جو کھارے پانی سے نم مٹی میں بھی اُگ سکتی ہیں حالانکہ یہ وفاقی منصوبے کا حصہ تھا۔

محکمہ آبپاشی نے نہروں کو سیلاب سے محفوظ نہیں بنایا۔ صوبے کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ٹیموں کے پاس سپلائی تیار نہیں تھی، ان کے پاس ابتدائی وارننگ کا کوئی مناسب نظام نہیں تھا اور آبادی کے انخلا کے مؤثر منصوبے بھی نہیں تھے۔ لہٰذا جب سیلاب آیا تو طے شدہ منصوبوں کو بروئے کار لانے کے بجائے سندھ کو وفاقی حکومت سے ہنگامی مدد طلب کرنا پڑی۔

ملک کو سیلاب سے محفوظ بنانے کے وفاقی وعدوں کے برسوں بعد بھی پنجاب نے اپنے نکاسی آب کے نظام کو بہتر نہیں کیا ہے۔ اس کا محکمہ آبپاشی اب بھی نوآبادیاتی دور میں بنائے گئے پرانے نظام پر انحصار کر رہا ہے۔

پنجاب نے ماحولیاتی اثرات کے جائزے یا موسمیاتی خطرات کی جانچ کیے بغیر سیلاب کے خطرے والے علاقوں میں بہت سے شہری ترقیاتی منصوبے (پی سی ونز) کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ پنجاب نے کبھی بھی اپنی آب و ہوا کے خطرے کا جائزہ و تشخیص مکمل نہیں کی حالانکہ یہ وفاقی پالیسی کی ضرورت تھی۔

بلوچستان کا انفرااسٹرکچر شدید بارشوں کو برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ صوبے نے کبھی بھی وفاقی این ڈی سیز کی دستاویز کے مطابق واٹرشیڈ مینجمنٹ سسٹم نہیں بنایا۔ خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری پر سمجھوتا کیا گیا کیونکہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو وفاق کے طے کردہ آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے درکار رقم یا اختیارات ملے ہی نہیں۔

سیلاب نے ایک حقیقت واضح کی۔ وفاقی وزارتیں ’یو این ایف سی سی سی‘ سے موسمیاتی تبدیلی کے لیے کارروائی کے بارے میں وعدے تو کر سکتی ہیں لیکن صرف صوبائی محکمے ہی ان وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔

زراعت کا شعبہ وفاقی حکومت کے نہیں بلکہ صوبوں کے اختیار میں ہے۔ مثال کے طور پر سندھ 54 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین کا ذمہ دار ہے جو کپاس، چاول اور گنے جیسی فصلیں اُگاتی ہے۔ پنجاب ایک کروڑ 40 لاکھ کروڑ ایکڑ پر گندم، چاول اور کپاس کی کاشت کرتا ہے۔ ہر صوبے کو مختلف آب و ہوا کے چیلنجز کا سامنا ہے جنہیں مختلف حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔

سندھ کی زمین سے نمکیات کم کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی فصلوں کی کاشت کرنے کی ضرورت ہے جو زیادہ گرمی کو برداشت کر سکیں۔ پنجاب کو بہتر آبپاشی کے ذریعے پانی کی بچت اور فصلوں کی وسیع اقسام کی کاشت کی ضرورت ہے۔

لہٰذا وفاقی حکومت اپنے این ڈی سیز میں ’موسمیاتی اقدار سے موافق زراعت‘ کے عزم کا تب تک کوئی حقیقی معنی نہیں جب تک کہ صوبے اصل میں لاگت کے تناظر میں تفصیلی منصوبے نہ بنائیں، اپنے آبپاشی کے نظام کو اپ گریڈ نہ کریں اور عمل درآمد کے لیے اپنے بجٹ کو استعمال نہ کریں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف شہروں کو مضبوط بنانا صوبوں اور مقامی حکومتوں کا کام ہے۔ سندھ کو ساحلی سیلاب، شدید گرمی اور ناقص نکاسی آب سے نمٹنا پڑتا ہے۔ پنجاب کو شدید فضائی آلودگی، گرم درجہ حرارت والے خطے (جنہیں شہری گرمی کے جزیرے کہا جاتا ہے) اور مون سون کے دوران سیلاب کا سامنا ہے۔ شہر فیکٹریوں کی وجہ سے آبی آلودگی اور بلند درجہ حرارت کے دباؤ کا شکار ہیں۔ ہر جگہ مختلف مسائل ہیں، اس لیے ان سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے انہیں اپنے مخصوص منصوبوں کی ضرورت ہے۔

سیاست اس بات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے کہ آب و ہوا کے منصوبوں پر کیسے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں مختلف صوبوں کو کنٹرول کرتی ہیں جن کی وجہ سے وفاقی آب و ہوا کے اہداف کو نافذ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہر صوبے کی اپنی سیاسی ترجیحات ہیں۔ وفاقی آب و ہوا کے منصوبے کی پیروی خودکار نہیں بلکہ وفاق اور صوبوں کو گفت و شنید کرنا ہوگی۔

وفاقی حکومت نے صوبوں میں موسمیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی صلاحیت پیدا کرنے میں تعاون کرنے کے بجائے انہیں آفات کے بعد ہنگامی رقم دینے پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ یہ آفات کے ردعمل اور آفات کی روک تھام کو ایک سمجھنے کے بجائے علیحدہ عمل کے طور پر دیکھتا ہے۔

سندھ اور پنجاب جیسے صوبوں میں بہت سے ترقیاتی منصوبے یعنی پی سی ونز ہر سال یہ جانچے بغیر منظور ہو جاتے ہیں کہ آیا وہ وفاقی آب و ہوا کے اہداف کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔ ان کے مالیاتی محکمے یہ بھی جانچ نہیں کرتے کہ ماحولیات سے متعلق کارروائیوں پر کتنے اخراجات کیے جا رہے ہیں یا این ڈی سیز کی ترجیحات کی بنیاد پر بجٹ کو ترتیب دیا جارہا ہے یا نہیں۔

اگرچہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 2016ء سے اب تک 60 ارب ڈالر سے زائد رقم فراہم کی ہے جس میں سے زیادہ تر صوبائی منصوبوں کے لیے تھی لیکن یہ رقم واضح طور پر این ڈی سیز کے مطابق نہیں تھی کیونکہ صوبوں نے موسمیاتی وعدوں پر عمل درآمد پر توجہ نہیں دی تھی۔

موسمیاتی کارروائی کی صحیح معنوں میں ذمہ داری لینے کے لیے ہر صوبے کو موسمیاتی منصوبہ (صوبائی این ڈی سی) کا اپنا ورژن بنانے کی ضرورت ہے جس کا مقصد مخصوص خطرات کا مطالعہ کرنا اور مقامی حل وضع کرنا ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر سندھ ساحلی سیلابوں کے خطرے کی پیمائش کرے گا، مینگرووز کی بحالی اور ساحلی تحفظات کی تعمیر کے اخراجات کا تخمینہ لگائے گا اور کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹہ جیسے شہروں میں شدید گرم درجہ حرارت کی کارروائی کے حساب سے بجٹ کی منصوبہ بندی کرے گا۔

پنجاب، بہاولپور اور ملتان جیسے مقامات پر پانی کی قلت پر کام کرے گا اور لاہور اور فیصل آباد میں شدید گرمی کو کم کرنے کے لیے بجٹ بنائے گا۔

بلوچستان خاکہ بنائے گا کہ کن علاقوں میں خشک سالی کا سب سے زیادہ خطرہ ہے، پانی کی بچت کے چھوٹے نظام بنانے پر اخراجات کا تخمینہ لگائے گا اور سرسبز میدانوں کے انتظام کے لیے منصوبہ بندی کرے گا۔ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان برفانی جھیلوں (گلوف) سے آنے والے سیلابوں کے خطرے کا مطالعہ کریں گے اور اپنے شمالی علاقوں کے لیے متوقع تباہی کی تیاری کریں گے۔

صوبائی مالیاتی محکمہ جات، سالانہ بجٹ میں آب و ہوا پر ہونے والے اخراجات کو شامل کریں گے۔ تمام پی سی ونز کو منظوری سے پہلے این ڈی سیز کے اہداف کے مطابق بنانا ہوگا۔ عوام اور سول سوسائٹی، پہلے ہی صوبائی حکومتوں کو اپنی آب و ہوا کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کرچکے ہیں جیسے مثال کے طور پر، کراچی میں گرمی سے ہونے والی اموات کا ذمہ دار سندھ جبکہ لاہور میں شدید فضائی آلودگی سے اموات پر پنجاب کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کے لیے پیش قدمی کرنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر صوبہ اپنا موسمیاتی منصوبہ (جسے این ڈی سی کہتے ہیں) بنائے جو قومی موسمیاتی حکمت عملی کے مطابق ہو اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کا اس میں ان پٹ شامل کیا جائے۔ ان منصوبوں میں واضح بجٹ، ٹائم لائنز، بیس لائنز اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اپنانے اور کم کرنے کے لیے پیش رفت کی پیمائش کرنے کے طریقے شامل ہونے چاہئیں۔

منصوبہ بندی کے کمیشن کو اس بات کو یقینی بنانے کی کوششوں کی قیادت کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت تمام قومی ترقیاتی منصوبے موسمیاتی تبدیلی سے موافق ہوں۔ اس کے علاوہ اقتصادی امور کے محکمے کو عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی سالانہ فنڈنگ میں ڈیڑھ سے 2 ارب ڈالر صوبائی این ڈی سی کے اہداف سے مطابقت رکھتے ہوں۔

اگر صوبے اپنے این ڈی سی نہیں بناتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے واضح حکمت عملی اور بجٹ ترتیب نہیں دیتے تو وفاقی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ سے موسمیاتی کارروائی کے حوالے سے کیے گئے وعدے، حقیقی صوبائی منصوبہ بندی اور اخراجات میں نظر انداز ہوتے رہیں گے۔

یوں گزشتہ دو کی طرح، وفاق کا تیسرا این ڈی سی کا منصوبہ بھی، جب تک یہ صوبوں کو حقیقی ذمہ داری لینے پر مجبور نہیں کرے گا، ناکام ہو جائے گا۔ یہ وہ اہم سبق ہے جسے پاکستان کو آخر کار سیکھنا چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
علی توقیر شیخ

لکھاری اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025