وزیراعلیٰ کی تبدیلی: کیا وفاق کے ساتھ تعاون میں عمران خان کا کوئی فائدہ ہے؟

شائع October 14, 2025

خیبر پختونخوا کا سیاسی بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ شاید عمران خان اور ’دوسری طرف‘ والے بھی اس بات سے واقف ہیں۔ صوبے کے وزیراعلیٰ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصے سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور خود عمران خان کی علی امین گنڈاپور سے مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔

اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں عمران خان کو کوئی ریلیف دلوانے میں ناکامی، کرپشن اور ناقص حکمرانی کے الزامات شامل تھے جبکہ پارٹی کے اندر (قیادت اور کارکنان) سب علی امین گنڈاپور سے ناخوش تھے۔ ان کے غلط فیصلوں اور ناکامیوں سے متعلق افواہیں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں۔

یہ بات بالکل واضح تھی کہ عمران خان اس صورتِ حال سے باخبر تھے۔ انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ علی امین گنڈاپور کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملاقات کریں تاکہ حکومتی معاملات جیسے صوبے کا بجٹ یا بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر بات چیت ہوسکے۔ لیکن کچھ عرصے سے وزیراعلیٰ اڈیالہ جیل نہیں جارہے تھے۔ پشاور سے یہی جواب آتا رہا کہ انہیں بانی سے ملنے کی اجازت نہیں مل رہی۔

ایسا لگتا ہے کہ پشاور کے حالیہ جلسے میں معاملہ انتہائی سنگین ہوگیا۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ جلسہ کافی غیر متاثر کُن تھا جس سے صوبے میں پارٹی کی مقبولیت میں کمی اور کارکنان کی صوبائی حکومت سے مایوسی کی خبروں کو تقویت ملی۔

سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی خوب گردش کرتی رہیں کہ جن میں شرکا کو اس وقت غصے کا اظہار کرتے دیکھا گیا کہ جب علی امین گنڈاپور اسٹیج پر آئے۔ اس واقعے نے علی امین گنڈاپور کو ضرور پریشان کیا۔ وہ فوراً اڈیالہ پہنچ گئے اور اس بار جیل کے دروازے ان کے لیے آسانی سے کھول دیے گئے۔ مگر وہ جس عجلت میں آئے تھے، اتنی ہی جلدی میں واپس بھی چلے گئے جس سے ان افواہیں گردش کرنے لگیں کہ عمران خان سے ان کی ملاقات اچھی نہیں رہی۔

بعد ازاں انہوں نے پریس کو بتانے کی ذمہ داری بیرسٹر سیف پر ڈال دی کہ وہ اب بھی عمران خان کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہیں لیکن بعد میں علیمہ خان پر ان کے سخت جملوں نے کچھ اور ہی کہانی بیان کی۔

جب اڈیالہ جیل سے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا اعلان ہوا تو سرکاری طور پر توجہ اس بات پر دی گئی کہ صوبے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا اور یہ کہ وزیراعلیٰ اپنی حکومت کو وفاقی پالیسی سے الگ نہیں کر سکے۔ مگر یہ امکان بھی موجود ہے کہ پوری کہانی یہ نہیں ہے۔ جیل میں عمران خان پر ’توشہ خانہ 2‘ کیس کی سماعت تیزی سے جاری ہے اور اب زیادہ شک نہیں رہا کہ فیصلہ کیا ہونے والا ہے۔

اعلیٰ عدالتوں سے عمران خان کو ریلیف ملنے کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ جب ان کے خلاف تمام فیصلے آ جائیں گے تو ان تک رسائی مزید محدود ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں عمران خان کے لیے یہ فائدہ مند نہیں کہ خیبر پختونخوا کی حکومت مرکز کے ساتھ تعاون کرے خاص طور پر جب پارٹی کے کارکن بھی ناراض ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی ہو۔

لیکن اصل ہنگامہ علی امین گنڈاپور کی ’برطرفی‘ سے زیادہ ان کے جانشین کی نامزدگی پر ہوا۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے سہیل آفریدی کی نامزدگی کا خیرمقدم کیا لیکن باقی سیاسی نظام نے بالکل مختلف ردعمل دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس میں اس فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ اس کی اجازت نہیں دی جائے گا۔

حکمران جماعت کے دیگر رہنماؤں نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے جبکہ پسِ پردہ گورنر راج کے امکانات یا پی ٹی آئی کے اندر خیبر پختونخوا میں دھڑے بندی کی چہ مگوئیاں بھی ہونے لگیں۔

اچانک نامزد ہونے والے امیدوار پر الزامات لگنے شروع ہو گئے۔ کبھی کہا گیا کہ وہ مراد سعید کے قریبی ساتھی ہیں (جو ان چند اہم پی ٹی آئی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو مقدمات کی کارروائی سے بچ گئے اور اب تک روپوش ہیں) کبھی انہیں طالبان کا ہمدرد بتایا گیا، کبھی اسمگلنگ میں ملوث یا اس سے بھی زیادہ سنگین الزامات سہیل آفریدی پر لگائے گئے۔

ان پر سب سے کم سنگین اور شاید سب سے حقیقی الزام، ان کا کم سیاسی تجربہ ہے۔ مگر ان کے خلاف تنقید اب مضحکہ خیز محسوس ہونے لگی ہے۔

گورنر خیبرپختونخوا مسلسل قانونی پیچیدگیاں پیدا کرتے رہے ہیں۔ کبھی کہا کہ انہیں وزیراعلیٰ کا استعفیٰ موصول ہی نہیں ہوا اور کبھی علی امین گنڈاپور کے دستخط کی اصلیت پر شک ظاہر کیا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرنے بھی پہنچ گئے۔

شاید دونوں نے اپنے مقامی حریف کی رخصتی پر دل ہی دل میں جشن منایا ہو لیکن یہ صرف ہم سوچ ہی سکتے ہیں کیونکہ جب سرکاری تصاویر جاری ہوئیں تو دونوں کے چہرے سنجیدہ تھے اور ملاقات کا کوئی خاص نتیجہ بھی سامنے نہیں آیا۔

یہ تمام واقعات ڈی جی آئی ایس پی آر کی پشاور میں ہونے والی پریس کانفرنس کے ساتھ منسلک کرکے بھی دیکھے جارہے ہیں۔ اگرچہ بات سیکیورٹی صورت حال پر ہو رہی تھی لیکن سیاست بیچ میں آ گئی۔

کچھ لوگوں کو یوں لگا جیسے یہ پریس کانفرنس پی ٹی آئی اور خیبرپختونخوا میں اس کی حکومت پر تنقید کے لیے کی گئی ہو اور یہ ظاہر کیا جا رہا ہو کہ صوبے میں بگڑتی سیکیورٹی کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں ان پریس کانفرنسز کی ضرورت یا مقصد پر سوال اٹھانا آسان نہیں تو بہتر یہی ہے کہ صرف سیاست پر بات کی جائے۔

پیر کی صبح تک نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا عمل توقع سے زیادہ آسانی سے مکمل ہوگیا۔ اپوزیشن نے اس انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور نئے وزیراعلیٰ کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے ظاہر ہوا کہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں پی ٹی آئی بدستور متحد ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آگے کا سفر بھی اتنا ہی آسان ہوگا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ عمران خان اور اُن کے ساتھ پی ٹی آئی کے پاس مرکز کے ساتھ خوشگوار تعاون کرنے کی زیادہ وجوہات نہیں ہیں۔ اس کا نہ تو ان پی ٹی آئی رہنماؤں کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے جو جیل میں ہیں اور نہ ہی یہ تعاون خیبر پختونخوا کے عوام کی بڑھتی ہوئی ناراضی کو کم کرتا ہے جو شدت پسندی اور فوجی کارروائیوں سے پریشان ہیں۔

دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ بھی ایک مشکل صورت حال میں ہے۔ وہ اب تک ملک خاص طور پر خیبر پختونخوا میں عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے دوسری بار یہ سوچا اور پھر یہ چھوڑ دیا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ کسی رہنما کو وزیراعلیٰ بنایا جائے (فی الوقت اس نے یہ خیال ترک کیا ہے)۔ یہ صرف اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے زیادہ وہاں عوامی ردِعمل کے خدشے کی وجہ سے ہے۔

بلوچستان کے برعکس حکمران طاقتیں، خیبر پختونخوا میں اب بھی عوام کے جذبات کی پروا کرتی ہیں۔ جہاں بلوچستان میں انہیں ایک مکمل طور پر کٹھ پتلی حکومت دی جا سکتی ہے جس کی کوئی حقیقی آواز نہ ہو وہیں خیبر پختونخوا میں عوامی جذبات کو نظر انداز کرنے کو وہ تیار نہیں۔ یہی بات شاید 2024ء میں بھی نظر آئی تھی اور حالیہ دنوں میں بھی شاید یہی حکمت عملی کارفرما ہے۔

اگر نیا وزیراعلیٰ مزاحمت کا راستہ اپناتا ہے جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے تو خیبر پختونخوا کی سلامتی کی صورت حال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ اور اگر وہ علی امین گنڈاپور کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں تو پی ٹی آئی اور عمران خان پر دوبارہ دباؤ آئے گا کہ وہ حالات کو ایک بار پھر پیچیدہ بنا دیں۔

درحقیقت جب تک عمران خان اور مرکز کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہوتی تب تک خیبر پختونخوا کے مختلف بحرانوں میں بہتری کی امید بہت کم ہے۔ پورا صوبہ اور اس کے ساتھ ساتھ پورا ملک، ایک مشکل دور سے گزرنے والا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور

لکھاری صحافی اور ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ‘نیوز وائز’ کی میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025