گدھوں کی فارمنگ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو کس طرح سہارا دے سکتی ہے؟
پاکستان میں سرمایہ کاری کا مرکز بنیادی طور پر کان کنی، سیاحت یا توانائی کے منصوبے ہوتے ہیں جو زیادہ تر پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ماتحت آتے ہیں۔ تاہم مویشیوں کے شعبے میں ہمارے لیے ایک غیرمتوقع موقع قریب ہے جس نے پالیسی سازوں، چینی سرمایہ کاروں اور کاروباری حضرات کی توجہ حاصل کر لی ہے اور یہ ہے گدھوں کی فارمنگ!
گدھے کو ایک وقت صرف باربرداری کے جانور کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن آج یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی مارکیٹ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ چین میں گدھوں کی کھال کی بڑھتی ہوئی طلب ہے جوکہ ’ایجیاؤ‘ (Ejiao) نامی ایک روایتی دوا بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ اس دوا کو صحت کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان جہاں تقریباً 59 لاکھ بار بردار گدھے موجود ہیں، یہ ملک کے لیے ایک غیر روایتی لیکن ممکنہ طور پر منافع بخش معاشی مواقع پیدا کرتا ہے۔
ابھی کچھ عرصے پہلے تک پاکستان میں گدھوں کی باقاعدہ صنعت قائم کرنے کا خیال ناقابلِ تصور سمجھا جاتا تھا۔ 2015ء میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس وقت گدھوں کی کھال کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی کہ جب یہ انکشاف ہوا کہ مقامی بازاروں میں گدھے کا گوشت گائے اور بکرے کے گوشت کے نام پر فروخت جا رہا ہے۔ تاہم اب حکومت نے اس پالیسی کو واپس لے لیا ہے۔
حکومت نے گدھوں کی کھال کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے مگر اس کے لیے سخت شرائط بھی عائد کی ہیں۔ 2 اکتوبر 2025ء کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے تحت برآمدات کے پالیسی آرڈر میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت اب برآمدات صرف گوادر فری زون میں منظور شدہ مذبح خانوں کے ذریعے ہی کی جا سکیں گی۔ برآمدات کو ایک باقاعدہ اور منظم زون تک محدود کرنے کا مقصد نگرانی کو مؤثر بنانا ہے جبکہ ساتھ ہی معاشی و سرمایہ کاری کے مواقع بھی فراہم کرنا ہے۔

گدھوں کی بڑھتی ہوئی صنعت، برآمدات کو متنوع بنانے، دیہی آمدنی اور چین کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعلقات میں غیر متوقع طور پر معاونت کرسکتی ہے۔
چین کی اس شعبے میں دلچسپی محض قیاس آرائی نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ’پاک-چین ڈونکی انڈسٹری ڈیولپمنٹ فورم‘ کا انعقاد ہوا جس کا موضوع ’مل کر مواقع پیدا کرنا، مل کر کامیاب مستقبل بنانا‘، تھا۔
اس تقریب میں بڑی تعداد میں شرکا موجود تھے جن میں دونوں ممالک کے سرکاری حکام، ماہرینِ تعلیم اور کاروباری شخصیات بھی شامل تھیں۔ اس موقع پر کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے جن میں پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اور سانگ یانگ انڈسٹریل کے درمیان ایک مفاہمتی یادادشت بھی شامل ہے۔ اس چینی کمپنی نے پہلے ہی پاکستان میں گدھوں کی صنعت کے فروغ کے لیے کنٹریکٹ فارمنگ ماڈل کا معاہدہ متعارف کروانے کا منصوبہ پیش کر دیا ہے۔
پاکستان کے ریگولیٹری نظام کا جائزہ لینے سے سامنے آیا کہ گدھوں کی صنعت کو فعال بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی موجود ہے۔ کمپنیز، کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹر کی جا سکتی ہیں، گوادر فری زون اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں کسٹمز کی چھوٹ اور سرمایہ کاروں کے لیے مراعات دستیاب ہیں جبکہ مویشیوں کے ذبح اور پروسیسنگ کے لیے حفظانِ صحت اور قرنطینہ کے قواعد و ضوابط بھی لاگو ہیں۔
اس کے علاوہ صوبائی فوڈ اتھارٹیز اور ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسیز، لائسنسنگ اور قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کی نگرانی کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ گدھوں کی فارمنگ پاکستان کے لیے ایک غیر روایتی شعبہ ہے لیکن پھر بھی اس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ قانونی حیثیت کا نہیں بلکہ ربط، مؤثریت اور شفافیت کا ہے۔
معاشی امکانات بھی قابلِ غور ہیں۔ دیہی علاقوں میں گدھوں کو ملکی اقتصادیات میں معاون کے طور پر نہیں بلکہ اکثر کم قیمت والے اثاثے اور عام امور انجام دینے والے جانور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اگر چینی سرمایہ کاری معاہدے کے مطابق فارمنگ ماڈل متعارف کروایا جائے تو یہی گدھے آمدنی پیدا کرنے والے ملکی اثاثوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
اگر گدھوں کے گوشت اور کھالوں کو حفظانِ صحت کے اصولوں اور تصدیق شدہ معیار کے تحت پروسیس کیا جائے تو اس سے پاکستان، چین کو ایک مستقل برآمدی گاہک بنا سکتا ہے۔ یہ شعبہ افزائش، نقل و حمل، ویٹرنیری خدمات اور پروسیسنگ کے شعبوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتا ہے جبکہ پاکستانی یونیورسٹیز اور چینی تحقیقی اداروں کے درمیان جانوروں کی جینیات، افزائش اور خوراک کی مؤثریت پر تعاون کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ شعبہ پاکستان کے وسیع تر سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے نظام کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اور اسلام آباد میں قائم کاروبار سہولت کاری کے سینٹر جیسے اقدامات پہلے ہی اہم منصوبوں کو تیزی سے وسعت دینے کا کام کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میں گدھوں کی پروسیسنگ کی صنعت کو بھی زرعی، معدنیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کی طرح قومی سرمایہ کاری ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
تاہم خطرات بھی موجود ہیں۔ جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے اس صنعت کی پائیداری سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں موجود تقریباً 5 کروڑ 50 لاکھ گدھوں میں سے سالانہ تقریباً 60 لاکھ صرف کھال کے حصول کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں گدھے غریب گھرانوں کی معمولاتِ زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں جو پانی، ایندھن و دیگر سامان لاد کر لے جانے میں کام آتے ہیں۔ ایسے میں اگر بڑے پیمانے پر گدھوں کی تجارتی بنیادوں پر افزائش اور انہیں ذبح کرنا شروع کر دیا جاتا ہے تو یہ صنعت کمزور اور پسماندہ طبقات پر اضافی بوجھ بن سکتی ہے۔

ثقافتی حساسیت بھی اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی گدھے کے گوشت کی وجہ سے بدنام ہے جسے اکثر فراڈ یا غیر قانونی سرگرمیوں سے جوڑا جاتا ہے۔ گدھوں کی صنعت کے حوالے سے رائے عامہ میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور اگر اس بیانیے کو درست انداز میں نہ سنبھالا گیا تو یہ معاملہ سیاسی ردعمل کا سبب بھی بنس سکتا ہے جو نہ صرف سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرے گا بلکہ حکومت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حکومت کا گوادر فری زون میں منظور شدہ مذبح خانوں تک برآمدات کو محدود کرنے کا فیصلہ ایک مثبت آغاز ہے مگر یہ صرف پہلا قدم ہے۔ غیر قانونی تجارت کو روکنے اور ملکی و بین الاقوامی خریداروں کا اعتماد جیتنے کے لیے لازمی ہے کہ شفافیت کو یقینی بنایا جائے. ہر گدھے کی پہچان اور سپلائی چین کی نگرانی کو ممکن بنایا جائے اور حفظانِ صحت کے سخت معیارات پر عمل درآمد کیا جائے۔
اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ گدھوں کی افزائش کو کاروبار میں تبدیل کرنے سے نچلے طبقے کو نقصان نہ پہنچے جو اپنی معمولاتِ زندگی کے لیے گدھوں پر انحصار کرتے ہیں۔ کسی بھی طویل مدتی منصوبے میں افزائش کا پروگرام، جانوروں کی مناسب دیکھ بھال اور کسانوں کے لیے منصفانہ معاہدے کو شامل ہونے چاہئیں۔

اب گدھوں کی فارمنگ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک قابل عمل شعبہ بن پاتی ہے یا نہیں، اس کا دارومدار چینی طلب پر کم بلکہ پاکستان کی اس صلاحیت پر زیادہ ہوگا کہ وہ ایک ایسا نگرانی کا ماڈل تیار کرے جو شفاف ہو، قابلِ نفاذ ہو اور عوامی سطح پر قابل قبول ہو۔
اگر اس معاملے کو احتیاط اور دانشمندی سے سنبھالا جائے تو یہ برآمدات کو متنوع بنانے، دیہی آمدنی، اور چین کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعلقات میں ایک غیر متوقع معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر اسے غلط انداز میں ڈیل کیا گیا تو یہ پاکستان کی معاشی کہانی کے دیرینہ مسئلے یعنی مختصر مدتی مواقع پسندی اور بدانتظامی کے فرسودہ تصورات کو مزید مضبوط کر سکتا ہے۔
گدھا شاید پُرکشش جانور نہ ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو کسی حد تک بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔














لائیو ٹی وی