’سخت ریاست بننے کی کوشش کی پاکستان کو قیمت چکانا ہوگی‘

شائع October 21, 2025

اناطول لیوین کی جانب سے پاکستان کو ایک ’سخت ملک‘ کہے ہوئے چند سال بیت چکے ہیں۔ ان کا یہ جملہ زیادہ توجہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔ اس جملے میں منفی تاثر زیادہ نہیں تھا جبکہ دنیا نے ’ناکام ریاست‘ یا ’دنیا کے سب سے خطرناک ملک‘ جیسے ناموں کو ترجیح دی۔

ان ناموں نے پاکستان میں رہنے والے ہم سب ہی لوگوں کو اس احساس میں مبتلا کیا کہ ہم اکثر منفی وجوہات کی بنیاد پر توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ جبکہ ہماری جو بھی عالمی شناخت بنی، وہ کبھی ہمارے نرم، مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے والی نہیں رہی۔

اب یوں لگتا ہے کہ ہم خود ہی بطور ریاست اپنی ایک سخت پہچان بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک ایسی طاقتور ریاست بننے کی کوشش کررہے ہیں جو نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی قوتوں کے سامنے بھی جھکنے کو تیار نہ ہو۔

یہ محض الفاظ نہیں ہیں۔ گزشتہ ہفتے لاہور سے نمودار ہونے والی ایک احتجاجی ریلی کو اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دی گئی جوکہ ایک ایسی منزل رہی ہے جس کی جانب ماضی میں بہت سی جماعتوں نے سفر کیا ہے۔ اس کے بعد تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جس نے احتجاج کی قیادت کی تھی جبکہ ریاستی تشدد کے الزامات لگائے گئے جس کے نتیجے میں جانوں کا ضیاع ہوا۔

ٹی ایل پی خود بھی ایک سے زائد مواقع پر تشدد کی ذمہ دار رہی ہے جس کے بعد ریاست کا ردعمل اب اجنبی معلوم نہیں ہوتا۔ گزشتہ چند سالوں میں ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت دیگر شہری حقوق کی تحریکیں جیسے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) یا بلوچ یکجہتی کمیٹی سب کو مبینہ طور پر جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مذہبی سیاسی تنظیموں جیسے ٹی ایل پی سے کچھ مختلف سلوک کیا جاتا تھا لیکن اب معاملہ یہ نہیں رہا۔ آقا کی پیغام رسانی کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ جماعت کا اب خاتمہ کیا جائے گا۔

اسی دوران آج اسلام آباد کے کابل کے ساتھ تعلقات تاریخ میں سب سے نچلے درجے پر ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اب نرمی سے ڈیل کرنے کا وقت گزر چکا اور اگر پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اسلام آباد، افغانستان کو اپنی روش بدلنے کے لیے دباؤ میں لے گا اور اسے تکلیف پہنچانے سے گریز نہیں کرے گا۔

اگر پہلے پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے یا سرحدی کنٹرول میں اضافہ جس میں وہاں مقیم دہشت گردوں کو نشانہ بنانا اور سرحد پر جھڑپیں شامل ہیں، ان سب نے افغانستان کو پریشان کیا تو اب اس سے بھی زیادہ ہونے والا ہے۔ ہفتے کے آخر میں ہمارے دو خلیجی دوستوں کو دو ہمسایوں کے درمیان تناؤ کم کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑا۔

کیا تبدیلی ہے! کبھی افغان طالبان کے سرپرست کے طور پر دیکھے جانے والے پاکستان کو اب ان کے ساتھ معاملات سدھارنے کے لیے ثالثوں کی ضرورت ہے۔

اور یہ لڑائیاں ایک ایسے وقت میں جاری ہیں کہ جب بھارت کی جانب سے جارحیت کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ سرکاری و غیرسرکاری حتیٰ کہ سرحد پار سے اٹھنے والی آوازیں بھی انتباہ دے رہی ہیں کہ مشرقی سرحد پر معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا ہے۔ اور کیا ہوگا اگر یہ ایک ایسے وقت میں ہوتا ہے کہ جب مغربی سرحد پر بھی کشیدگی ہے؟

لیکن صرف سرحدیں خطرہ نہیں ہیں۔ دو ہمسایوں کے ساتھ کشیدگی کا براہ راست تعلق ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی بگڑتی سلامتی کی صورت حال سے بھی ہے۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ مغربی اور مشرقی ہمسایے ملک میں دہشت گردی کی مالی امداد اور انہیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازے دے رہے ہیں۔

چونکہ اس بیرونی مداخلت کو اتنے بڑے مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں نے اس بارے میں بات کرنا چھوڑ دیا ہے کہ کس طرح بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مقامی مسائل بھی تشدد میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

جارحانہ ہمسایہ ممالک اور عسکریت پسندوں کے خلاف سخت مؤقف کے درمیان یہ اطمینان پایا جاتا ہے کہ پنجاب اور سندھ کے حالات قابو میں ہیں۔ اس وقت عوامی تحریک اور تشدد کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں سب ٹھیک ہے۔ اور اگر کسی صوبے میں پانی کا مسئلہ غم و غصے کا باعث بن رہا ہے یا کسی حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھ رہے ہیں تو یہ چھوٹے معاملات ہیں۔

حکومت یا تو طاقت کا استعمال کر سکتی ہے یا کچھ سمجھوتہ کر سکتی ہے (جیسا کہ انہوں نے سندھ میں پانی کے مسئلے پر اور آزاد کشمیر میں کیا تھا) تاکہ معاملات کو ابھی کے لیے دبایا جا سکے۔

ریاست اس قدر پُراعتماد ہے کہ اس نے ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاست نے اپنی کامیابی کا اعلان کردیا ہے کیونکہ وہاں کوئی لڑائی نہیں ہوئی اور سڑکیں بھی پُرسکون رہیں۔ لوگ اس کامیابی کی اس قدر تعریف کر رہے ہیں کہ شاید ہی کوئی یہ سوال کررہا ہو کہ اس کا مسلم لیگ (ن) پر کیا اثر پڑے گا جن کے اراکین کو اپنے حلقوں میں لوگوں کے غصے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ 2018ء میں ہوا تھا۔ ایسے میں سلامتی کا مسئلہ ان کے لیے اضافی بوجھ ہوگا۔

مجموعی طور پر، جب حکومت عوام، سیاسی جماعتوں، حقوق کی تحریکوں، جنگجوؤں اور ناراض پڑوسیوں پر سخت کارروائیاں کر رہی ہے تو یہ سوچنا مشکل نہیں کہ کہیں یہ سخت رویہ یا سخت ریاست بننے کی کوشش ملک پر اضافی بوجھ نہ بن جائے۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے، اگر پاکستان کے لیے یہ بوجھ بہت زیادہ ہو جائے تو کیا ہوگا؟

مقصد یہ کہنا نہیں ہے کہ حکومت یہ تمام لڑائیاں نہیں جیت سکتی۔ شاید جیت بھی جائے لیکن احتیاط کے طور پر زیادہ پُراعتمادی سے بچنا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ بہت سے تصادم خاص طور پر حقیقی عوامی تحریکوں یا مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ لڑائیاں حکومت کو ہمیشہ ایک بحران کی حالت میں دھکیل دیتی ہے۔

درحقیقت حکومت عام لوگوں سے خوفزدہ اور انہیں قابو میں رکھنے میں اتنی مصروف ہے کہ اس کے پاس کوئی مواقع یا ارادے نہیں ہیں کہ وہ سیاسی طور پر مشکل اصلاحات کر سکے۔ اگر انتخابات اس طرح سے منظم کیے گئے ہیں کہ غیرمقبول لیڈران کو مسلط کیا جائے تو تاجروں سے ٹیکس وصول کرنے کا کام کون کرے گا؟ انہیں خوش رکھنا اور دوسروں پر بوجھ ڈالنا آسان ہے۔

اگر کسی دائیں بازو کی تنظیم کو ختم کرنا ہو تو تعلیمی شعبے کو بہتر بنانے کا منصوبہ کون بنائے گا؟ اساتذہ کے غضب کا مقابلہ کون کرے گا جو سڑکوں پر آ سکتے ہیں؟ کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ عمران خان اور علی وزیر کو قید میں رکھنے کے لیے دیگر کتنے اہم فیصلے زیرِ التوا ہیں؟

یہ فہرست بہت طویل ہے۔ ریاست کو سخت مؤقف پر ڈٹے رہنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اور پاکستان کے بے بس لوگوں کو اس کی واقعی کیا قیمت چکانی پڑی ہے، اس کا اندازہ یہ حکومتی مدت ختم ہونے کے بعد بھی ہوتا رہے گا۔ ابھی کے لیے ہم صرف یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آخر وہ بوجھ کیا ہوسکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور

لکھاری صحافی اور ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ‘نیوز وائز’ کی میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2025
کارٹون : 13 نومبر 2025