ماڑی پور ٹرک اسٹینڈ پر کم عمر لڑکوں کا جنسی استحصال اور اس سے جڑے تلخ حقائق
سیف اللہ کی عمر 10 سال ہے۔ جب بھی اس کا آجر جوکہ بلال نامی طویل مسافت پر ٹرک چلانے والا ڈرائیور ہے، ’موڈ‘ میں ہوتا ہے تب سیف اللہ کہتا ہے کہ اس کے پاس بلال کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
بلال گزشتہ 3 دہائیوں سے ماڑی پور ٹرک اسٹینڈ پر کام کررہا ہے جبکہ ملک بھر کی قومی شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے وہ سامان کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ اس دوران اس نے کئی نوجوان لڑکوں کو اپنے ساتھ بطور شاگرد کام کرنے کے لیے ’رکھا‘ ہوا ہے۔ سیف اللہ ان لڑکوں میں تازہ شمولیت ہے۔
کراچی کے مغربی حصے میں 100 ایکڑ پر پھیلا ہوا ماڑی پور اسٹینڈ، مصروف اوقات میں ڈیزل کے دھوئیں بھر جاتا ہے جبکہ ہارن کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ سندھ اور اس سے باہر کے راستوں پر جانے والے ٹرک اپنی باری کا یہیں رک کر انتظار کرتے ہیں۔ مگر یہاں صرف ٹرانسپورٹ کا کاروبار نہیں ہوتا۔
استحصال کا رجحان
گلیوں اور مرمت خانوں میں ایک تشویشناک کلچر پایا جاتا ہے۔ سیف اللہ جیسے کم عمر کام سیکھنے والے لڑکے، کم عمری کی مزدوری، جسمانی تشدد اور جنسی استحصال کی ایک ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جوکہ بچوں کی حفاظت کے لیے کام کرنے والے حضرات کے مطابق عام ہیں مگر شاذ و نادر ہی مجرمان کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے۔
12 سالہ وزیر بھی بلال کے شاگردوں میں سے ایک ہے۔ وہ ٹرک کے مکینک کی زیرِ نگرانی کام کرتا ہے جہاں وہ انجن کی مرمت اور ٹائر بدلنے کا کام سیکھ رہا ہے۔ دونوں لڑکے کیبن صاف کرتے ہیں، اوزار لاتے ہیں اور مختلف چھوٹے معمولی امور انجام دیتے ہیں تاکہ وہ وہاں کام کرتے رہیں۔ یہی کام کرکے وہ طویل سفر کے لیے جانے والے ٹرک میں سوار ہوسکتے ہیں لیکن یہ کرتے ہوئے وہ ہمیشہ بلال کی پہنچ میں رہتے ہیں۔
یہ ظلم صرف ایک فرد تک محدود نہیں۔ ماڑی پور میں کئی ڈرائیور اسی طرح کے استحصال میں ملوث ہیں جبکہ متاثرہ لڑکوں کے مطابق بعض اوقات ڈرائیورز ایک دوسرے کے نوجوان مددگار لڑکوں کو آپس میں شیئر بھی کرتے ہیں۔

سیف اللہ کا کہنا ہے کہ انکار کرنے پر اس کے ہاتھ میں جو بھی اوزار ہوتا ہے، اسی سے سیف اللہ کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ وہ اپنے خاندانی پس منظر کو ’پریشان کُن‘ بیان کرتا ہے اور اس کے پاس کہیں جانے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ یومیہ اجرت کی بنیاد پر وہ یہاں کام کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیف اللہ نے ڈان کو بتایا، ’باقی امور تو صرف کام کا حصہ ہیں‘۔
اس کے خیال میں ایک ناقابلِ برداشت حالات سے نجات کی کوشش میں وہ دوسری مشکل صورت حال میں پھنس چکا ہے۔
آمدنی کا انحصار
لکھاری نے کراچی کے ماڑی پور ٹرک اسٹینڈ پر ایک چھوٹے پیمانے پر غیر رسمی تحقیقات کی جس میں ان کی جمع کردہ کہانیوں سے ایک واضح نمونہ ظاہر ہوا ہے۔ بہت سے ڈرائیورز نے غیررسمی گفتگو میں اتفاق کیا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان لڑکوں کے ساتھ وقت گزارنا، ان کے لیے تفریح کا بنیادی ذریعہ ہے۔
بلال سمیت بہت سے ڈرائیورز نے کہا کہ انہیں ایسا کرنا ضروری لگا کیونکہ لمبی مسافت کی ڈرائیونگ میں وہ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سفر انہیں اپنے خاندانوں سے دور رکھتا ہے۔ انہوں نے مسلسل یہ دعویٰ کیا کہ ان تعلقات میں لڑکوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔
تاہم بات چیت سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ صورت حال زیادہ پیچیدہ ہے۔ بہت سے لڑکے جن کا خاندانی پس منظر اچھا نہیں ہوتا، وہ ان تعلقات کو دیکھ بھال اور وفاداری سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ڈرائیورز کے ’ضرورت کے تحت‘ قائم کیے جانے والے تعلقات کے بیانیے کو پیچیدہ رخ دیتا ہے۔
ان ’خاص‘ تعلقات کے احساس کو اکثر چھوٹے اور علامتی اشاروں کے ذریعے مضبوط کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ شاگرد لڑکے اپنے ڈرائیور کا پرفیوم استعمال کرتے ہیں جبکہ وہ اسے ایک خاص چیز کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا اشتراک وہ اور ان کا آجر کرتا ہے۔

مثال کے طور پر سیف اللہ اپنی انگلی میں پتھر کی ایک انگوٹھی پہنتا ہے جوکہ اسے بلال نے دی ہے۔ اگرچہ اس انگوٹھی کا سائز بڑا ہے لیکن اس نے اسے اپنے مطابق ایڈجسٹ کرلیا ہے اور اب وہ بڑے فخر سے اسے سب کو دکھاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے چھوٹے تحائف ڈرائیور اور شاگرد لڑکے کے درمیان ایک قریبی اور زیادہ ذاتی تعلق پیدا کرتے ہیں۔
یہ تعلق اکثر والدین اور بچوں کے درمیان رشتے کی صورت اختیار کرلیتا ہے لیکن یہ جعلی رشتہ نقصان دہ جذباتی بندھن کی بنیاد پر بنتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہرہ یوسف بتاتی ہیں کہ بچہ جو پہلے سے ہی آمدنی کے لیے بالغ پر منحصر ہوتا ہے، وہ اس شخص سے جذباتی وابستگی قائم کرلیتا ہے جو اس کا استحصال کرتا ہے۔ اس صورت حال سے بچے کے لیے نجات بہت مشکل ہوجاتی ہے۔
طاقت کا کھیل
سیف اللہ کی کہانی اس کی مثال ہے۔ وہ اپنے بیمار والد کی مالی مدد کے لیے سندھ کے گاؤں سے کراچی آیا ہے۔ بلال نے اسے گھر اور کام دیا لیکن جلد ہی صورت حال خوفناک ہوگئی۔ ایک ہفتے میں ہی سیف اللہ کا ریپ ہوگیا اور اسے جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔ اگرچہ ابتدائی ہفتے خوفناک تھے کیونکہ بلال، سیف اللہ کی زندگی کے ہر پہلو پر قابض ہوچکا تھا۔ کھانے سے لے کر اس کے خاندان سے رابطے تک، تمام معاملات بلال کے کنٹرول میں تھے۔ سیف اللہ کے لیے فرار کی کوئی راہ نہ تھی۔
یہ تعلقات ایک سخت طاقت کا ڈھانچہ قائم کرتے ہیں۔ ڈرائیور کے پاس پورا کنٹرول ہوتا ہے اور لڑکا، اپنی کمزوری کی وجہ سے اس دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ جیسے جیسے لڑکے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور فرار ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے اس جال سے نکلنا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کی کمیونٹی میں، ان کی مردانگی کا تعلق ان کے جنسی کردار سے ہے۔ غیر فعال کردار پر مجبور کیے جانے کی وجہ سے وہ کمزور دکھائی دیتے ہیں اور یہ ان سے ان کے اختیارات چھین لیتے ہیں۔
ڈرائیور ذاتی معلومات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں کہ اگر لڑکے کبھی انکار کریں یا فرار کی کوشش کریں گے تو ان کے خاندان اور برادری کے سامنے ان کے راز فاش کر دیے جائیں گے۔ جیسے ایک شاگرد بیان کرتا ہے، لڑکوں میں معاشرے میں مسترد کیے جانے کا خوف ایک طاقتور ہتھیار ہے جس کی بنیاد پر لڑکوں کو حکم ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

کچھ لڑکے حالات کو قبول کرنے لگتے ہیں۔ وزیر اضافی رقم کے لیے بلال کی بات مانتا ہے جس سے وہ چپل جیسی اشیا خریدتا ہے۔ وہ اسے ایک کاروباری ڈیل کے طور پر دیکھتا ہے جس پر یقین کرنا اس کے لیے یہ تسلیم کرنے سے زیادہ آسان ہے کہ اس کا جنسی استحصال ہو رہا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اسے گھر یاد آتا ہے تو اس نے ڈان سے کہا، ’یہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس کے بعد آپ گھر کیسے جا سکتے ہیں؟‘
یہاں تک کچھ لڑکے یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے جنسی استحصال پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کے لیے انہوں نے پیسے یا ذاتی لطف کو جواز کے طور پر پیش کیا۔ سیف اللہ کہتے ہیں، ’یہ فعل یک طرفہ نہیں ہے‘۔ لیکن جواز پیش کرنے کا یہ طریقہ انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ اس سے لڑکے خود کو متاثرہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس فعل میں ان کی رضامندی شامل ہے۔ یہ سوچ انہیں مدد مانگنے یا یہ محسوس کرنے سے روکتی ہے کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے۔
متعلقہ اداروں کی خاموشی
سندھ پروبیشن آف ایمپلائمنٹ آف چلڈرن بل 2017ء جیسے قوانین بچوں کی جسم فروشی کو غیر قانونی اور قابل سزا قرار دیتے ہیں لیکن ماڑی پور جیسے مقامات پر ان قوانین کو شاید ہی کبھی نافذ کیا گیا ہو۔
ٹرک کمیونٹی میں ڈرائیورز اور مددگار لڑکوں کے درمیان جنسی تعلقات کو عام سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے پولیس اکثر اس معاملے پر آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ لوگ کبھی کبھی لڑکوں کو ڈرائیور کے خاندان کا فرد سمجھتے ہیں، لہٰذا کسی کو شک نہیں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ سب کو معلوم ہے، حکام کچھ نہیں کرتے، لڑکوں کو یونہی غیر محفوظ چھوڑ دیتے ہیں۔
لڑکوں کے استحصال کا ایک اور ذریعہ منشیات ہے۔ ٹرکنگ کمیونٹی میں منشیات کا استعمال عام ہے۔ ڈرائیور طویل سفر پر جاگتے رہنے کے لیے چرس اور میتھمفیٹامین (جسے مقامی طور پر ’آئس‘ کہا جاتا ہے) جیسی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ لڑکوں کا پالا بھی منشیات اور شراب سے پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ خود بھی ان کے استعمال کے عادی ہو سکتے ہیں۔
اس سے صحت کا سنگین مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ زیادہ تر جنسی سرگرمیوں میں حفاظتی اشیا کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ 2014ء کے ثقافت، صحت اور صنف کے جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق نے بتایا کہ صرف 8 فیصد ٹرک ڈرائیورز کنڈوم استعمال کرتے ہیں۔ ایچ آئی وی اور جنسی تعلقات سے منتقل ہونے والے دیگر انفیکشنز کے بارے میں آگاہی بھی بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر بلال کا خیال ہے کہ اس کا عقیدہ اسے ’مغربی برائیوں‘ سے محفوظ رکھتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ جب تک لوگ ان کے بارے میں کھل کر بات نہیں کریں گے، بدسلوکی اور صحت کے بڑھتے ہوئے خطرات بلا روک تھام یونہی جاری رہیں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی