شمسی انقلاب یا درآمدی انحصار؟ پاکستان میں لیتھیم بیٹریز کا بڑھتا بوجھ
نکو دوست محمد کی راتیں تقریباً ایک دہائی سے تاریکی کا شکار تھیں۔
ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ میں تمپ کی گرد آلود پہاڑیوں میں واقع دور دراز گاؤں کولاہو میں اندھیرا زندگی کا مستقل حصہ تھا جہاں پنکھے کی آواز، فریج میں رکھی ادویات کی حفاظت اور مکمل روشن کمرے محض خواب بن کر رہ گئے تھے۔
رات میں بچھو کا ڈنک ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا حل مٹی کے تیل کے چراغ کی مدھم روشنی میں تلاش کرنا پڑتا تھا۔ گاؤں کے اسکول سے لے کر قریب واقع ڈسپنسری تک، کسی کے پاس بھی بجلی کی سہولت نہیں تھی۔
یہ صورت حال چند ماہ پہلے اس وقت بدل گئی کہ جب ایک ٹرک کی گاؤں آمد ہوئی جس پر کچھ اجنبی آلات اور ایک حیرت انگیز، مینٹیننس سے آزاد بیٹری لدی ہوئی تھی۔ یہ تمام ایک گھریلو شمسی توانائی کے نظام کے اہم اجزا تھے جو بلوچستان کے محکمہ توانائی کی ایک نئی اسکیم کے تحت فراہم کیے گئے تھے۔ نکو دوست محمد اُن 40 خوش نصیب افراد میں سے ایک تھا جنہیں یہ ’گھریلو سولر حل‘ فراہم کیا گیا۔
شمسی توانائی، ایک نعمت
پاکستان کے سب سے بڑے مگر توانائی سے محروم صوبہ بلوچستان کے وسیع اور سورج کی تپش سے جھلستے علاقوں میں قومی بجلی کے گرڈ تک رسائی کسی نایاب چیز سے کم نہیں۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق، صوبے کے صرف تقریباً ایک تہائی حصے کو ہی بجلی کے گرڈ سے منسلک کیا گیا ہے جبکہ جو منسلک ہیں، وہ علاقے بھی بجلی کی غیر یقینی فراہمی کا شکار ہیں جہاں بجلی منقطع بھی ہوجاتی ہے۔
اس تناظر میں ایک بڑی تبدیلی آرہی ہے جو چین کی جانب سے متعارف کردہ اسکیم کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ یہ پروگرام بلوچستان کے محکمہ توانائی اور چین کے باہمی اشتراک سے شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد صوبے کے دور دراز علاقوں میں 15 ہزار گھریلو سولر سسٹمز کی فراہمی ہے۔
ہر کِٹ بجلی کی خودمختار پیداوار کا ذریعہ ہے جس میں 250 واٹ کا سولر پینل، ایک چارج کنٹرولر اور سب سے اہم، ایک کمپیکٹ لیتھیم آئن بیٹری شامل ہے جوکہ وہی ٹیکنالوجی ہے جو کراچی میں برقی موٹر سائیکلز اور لاہور میں لیپ ٹاپس کو توانائی فراہم کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔
ناکو دوست محمد کے لیے یہ تمام تکنیکی اصلاحات بےمعنی ہیں۔ وہ ’لیتھیم آئن‘ یا بیٹری پر درج ’گوانگ ڈونگ‘ صوبے کے نام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔ ان کی سمجھ بوجھ سادہ سی ہے۔
ان کی نظر میں یہ نظام ایک پینل پر مشتمل ہے جو سورج کی روشنی جذب کرتا ہے، ایک ڈبہ ہے جو دن بھر پیدا ہونے والی توانائی کو محفوظ رکھتا ہے جس کی بنیاد پر انہیں یقین ہے کہ شام تک ایک کمرے پر مشتمل اُس کے مٹی کے گھر کے لیے اتنی بجلی بن جائے گی کہ دو بلب مسلسل روشنی فراہم کرسکیں جبکہ پنکھا بھی دھیرے دھیرے ہوا دے سکے۔ ان کی نظر میں یہ جدید دنیا کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

انقلاب کا پیمانہ
ناکو دوست محمد کا یہ چھوٹا سا گھریلو شمسی نظام دراصل ملک بھر میں جاری ایک بڑے رجحان کی ایک معمولی مثال پیش کرتا ہے۔
عالمی تجارتی ڈیٹا پلیٹ فارم Volza کے مطابق، پاکستان نے اپریل 2024ء سے مارچ 2025ء کے دوران اپنی تقریباً 70 فیصد لیتھیم آئن بیٹریز چین سے درآمد کی ہیں جبکہ باقی بیٹریز امریکا اور ویتنام سے درآمد کی گئی ہیں۔
جون 2025ء میں انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس (آئی ای ای ایف اے) کی ایک رپورٹ میں سامنے آیا کہ پاکستان نے 2024ء میں تقریباً 1.25 گیگا واٹ-ہاورز (جی ڈبلیو ایچ) کی لیتھیم آئن بیٹریز درآمد کیں اور اضافی طور پر 2025ء کے پہلے دو ماہ میں 400 جی ڈبلیو ایچ کی بیٹریز درآمد ہوئیں۔
’اگر موجودہ کاروباری رجحان قائم رہا‘، تو یہ درآمدات 2030ء تک 8.75 جی ڈبلیو ایچ تک بڑھ سکتی ہیں جو ملک کی متوقع سب سے زیادہ بجلی کی طلب کا تقریباً 26 فیصد پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔
بیٹریز کی طلب میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ پاکستان کی نئی الیکٹرک وہیکلز (ای وی) پالیسی برائے 2025ء-2020ء کا مقصد 2030ء تک تمام گاڑیوں کو 30 فیصد تک الیکٹرک توانائی پر منتقل کرنا ہے۔
چین کی BYD جیسی بڑی کمپنیز 2026ء تک پاکستان میں برقی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کو مقامی سطح پر اسمبل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں جس سے محدود تعداد میں بیٹریز کی سپلائی میں مقابلہ مزید سخت ہو جائے گی۔
مقامی منظرنامہ
ابھی کے لیے چین سے بیٹریز کی درآمدات کسی غنیمت سے کم نہیں لیکن اس سہولت کی ایک قیمت بھی ادا کرنی ہے۔ پاکستان بیٹریز کے لیے مکمل طور پر کسی دوسرے ملک ہر انحصار کررہا ہے جوکہ ٹھیک نہیں۔ حالانکہ بیٹری پلانٹس قائم کرنے کے حوالے سے کچھ اعلانات ہوئے ہیں لیکن اب تک ملک میں مقامی سطح پر لیتھیم کی کان کنی نہیں اور نہ ہی سیل تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ الیکٹرونک ویسٹ کو ری سائیکل کرنے کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ تک موجود نہیں ہے۔
یونیورسٹی آف تربت میں الیکٹریکل انجینئر اسومی ہیبیٹن خبردار کرتے ہیں کہ ’اگر بیجنگ کی برآمداتی پالیسی میں تبدیلی آتی ہے، شپنگ میں کوئی مسائل پیش آتے ہیں یا جغرافیائی سیاسی بحران کی وجہ سے سروس بند ہو جاتی ہے تو پاکستان کے پاس بیٹریز کا کوئی متبادل سپلائر موجود نہیں ہوگا‘۔
تجارتی خطرات کے علاوہ اسومی ہیبیٹن ایک فوری انصاف کے مسئلے کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ایک 5 کلو واٹ گھنٹے کے لیتھیم آئن سولر سسٹم کی قیمت 2 لاکھ روپے سے زیادہ ہوسکتی ہے جس کا خرچہ کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’بلوچستان کے محکمہ توانائی کی جانب سے پیش کردہ یہ اسکیمز فرق پیدا کرتی ہیں جہاں بہت سے غریب اور پسماندہ کمیونٹیز اب بھی ان اسکیمز سے محروم ہیں‘۔

فضلے کا بڑھتا بحران
لیکن مسائل یہیں ختم نہیں ہوتے۔ فی الحال پاکستان میں لیتھیم آئن بیٹری ری سائیکلنگ کی کوئی باقاعدہ سہولت موجود نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ختم شدہ بیٹریز جن میں عموماً زہریلی دھاتیں جیسے کوبالٹ، مینگنیز، نکل اور لیتھیم کے نمک شامل ہوتے ہیں، کچرے کے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں گی جس سے زمین اور پانی کی آلودگی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
لیتھیم کے فضلے کی ری سائیکلنگ کے حوالے سے کسی پالیسی کے بغیر پاکستان سر سبز ہونے کی کوشش میں اپنے ماحول کو آلودہ بنانے کا خطرہ مول رہا ہے۔
امریکی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی اور عالمی توانائی ایجنسی جیسی تنظیموں نے لیتھیم آئن بیٹریز کو ری سائیکل کرنے کے خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق، اگر ان بیٹریز کو ری سائیکلنگ مراکز میں مناسب طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جاتا تو وہ ’تھرمل رن وے‘ سے گزر سکتی ہیں یہ ایک خطرناک عمل ہے جہاں خراب شدہ بیٹریز کچلے جانے، پنکچر ہونے یا زیادہ گرم ہونے سے ہائیڈروجن فلورائیڈ جیسی زہریلی گیسز کے اخراج کی وجہ سے شارٹ سرکٹ سے آگ لگنے اور گرم ہونے کے باعث پھٹ سکتی ہیں۔
ان خطرات میں اضافے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کا ری سائیکلنگ سسٹم ان تمام بیٹریز کے لیے تیار نہیں ہے۔ فوربس کا تخمینہ ہے کہ آج تقریباً 5 فیصد لیتھیم آئن بیٹریز کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے طلب میں 30 فیصد اضافہ ہوتا ہے، بہت سی پرانی بیٹریز کی صلاحیتیں بھی ختم شد ہوجائیں گی جس سے حفاظت اور ماحولیاتی مسائل مزید بڑھ جائیں گے اور اس کافی حد تک نظام پر دباؤ بڑھے گا جو پہلے سے ہی ناکامی کا شکار ہورہا ہے۔
یہ مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی یونیورسٹیز جیسے لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یا کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی، بیٹری ری سائیکلنگ اور مینجمنٹ پر کوئی خصوصی کورسز فراہم نہیں کرتیں۔ اس تعلیمی خلا کی وجہ سے بڑے منصوبوں کے لیے پاکستان یونہی غیر ملکی ماہرین پر انحصار کرتا رہے گا۔

اگرچہ زمینی سرویز چاغی اور گلگت بلتستان میں ممکنہ لیتھیم کے ذخائر کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن یہ امکان انتہائی کم ہے۔ اخراج کے چینی ماڈلز، مقامی حقوق اور ماحولیاتی تحفظ کے خدشات ایسی اہم رکاوٹیں ہیں جن کے تدارک کے بغیر پاکستان، صارف سے فراہم کنندہ کے کردار میں منتقل نہیں ہوسکتا۔
چینی ساختہ بیٹریز کی مسلسل درآمدات پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا ملک کوگرین ٹیکنالوجی کے لیے درآمدات پر انحصار کرنا چاہیے یا اپنی مقامی صلاحیتیں پیدا کرنی چاہئیں؟ اور جب یہ لاکھوں بیٹریز ری سائیکلنگ کے منصوبے کی عدم موجودگی کے سبب کچرے کے ڈھیر میں شامل ہو جائیں گی تو کیا ہوگا؟
ہمارے ہمسایے تو ان سوالات کے جوابات دے رہے ہیں۔ بھارت مقامی طور پر بیٹریز بنانے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس نے 2022ء کا بیٹری ویسٹ مینجمنٹ رول بھی متعارف کروایا ہے۔ بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ روانڈا بھی بیٹری کی پیداوار کے چھوٹے منصوبوں کا آغاز کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان توانائی کے میدان میں اب بھی صرف بیٹریز کی درآمدات پر انحصار کر رہا ہے۔
ایک محفوظ مستقبل کے لیے مربوط کارروائی ضروری ہے۔ حکومت کو مقامی بیٹریز کی پیداوار میں مدد کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر تربیتی مراعات کو فروغ دینا چاہیے۔ چین کے ساتھ معاہدوں میں تجارت کو وسعت دیتے ہوئے خصوصی اقتصادی زونز میں مشترکہ ٹیکنالوجی کے منصوبوں کو شامل کرنا چاہیے۔
مستقبل میں بیٹریز کے فضلے کے لیے پہلے سے تیاری کرنی ہے تو اس کے لیے ملک بھر میں بیٹری کی تمام تنصیبات کا سراغ لگانا ضروری ہے۔ لوگوں کو بیٹری کی حفاظت اور معیار کے بارے میں تعلیم دی جانی چاہیے اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ مختلف ممالک سے بیٹریز خریدے تاکہ سپلائی کے لیے ایک ملک پر انحصار کرنے جیسے مسائل سے بچا جا سکے۔
بجلی کی قیمت
تمب میں ہر گزرتا دن گرم سے گرم تر ہوتا جارہا ہے۔ ناکو دوست محمد اپنے گھر آنے والے لوگوں کو فخر سے بتاتے ہیں کہ انہیں اب راتوں سے خوف محسوس نہیں ہوتا۔ ان کا پوتا اب اندھیرے کے بعد بھی پڑھ سکتا ہے اور اُن کی بیوی اب غروب آفتاب سے پہلے کھانا پکانے کی پابند بھی نہیں۔

مگر بیٹری کے بارے میں ایک نیا خوف بھی پیدا ہو گیا ہے۔ گاؤں کے ایک استاد نے نکو دوست محمد کو بتایا ہے کہ یہ بیٹریز شدید گرمی میں آگ پکڑ سکتی ہیں۔ وہ تشویش میں مبتلا ہیں کہ وہ ڈبہ جس پر چینی حروف لکھے ہیں، آخر کب تک چل پائے گا؟ کیونکہ انہیں نہ اس کے ساتھ کوئی رسید ملی ہے نہ کوئی وارنٹی جبکہ انہیں اسے تبدیل کرنے کا کوئی طریقہ بھی نہیں بتایا گیا ہے۔
ان بیٹریز میں موجود لیتھیم ایک طویل سفر طے کرچکا ہے۔ وہ چلی کی ایک کان سے، گوانگ ڈونگ کی ایک فیکٹری تک پہنچا جہاں سے وہ کراچی کی بندرگاہ آیا ہے اور پھر آخر میں ایک کچے راستے پر سفر کرتے ہوئے اسے ایک گاؤں میں پہنچایا گیا ہے جو طویل عرصے سے قومی بجلی گرڈ تک رسائی سے محروم ہے۔
لیتھیم آئن بیٹریز پاکستان جیسے ملک کے لیے کارآمد ہیں جہاں بجلی کی فراہمی کے تسلسل کے حوالے سے خدشات موجود ہیں جبکہ وہ سبز توانائی کے حصول کا عزم بھی رکھتا ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان صرف ان بیٹریز کو درآمد کر رہا ہے جبکہ ختم شد بیٹریز کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل خطرناک بن چکا ہے۔
ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا پاکستان صرف دیگر ممالک کی ٹیکنالوجی استعمال کرے گا یا وہ ایک ایسا ملک بننے کا انتخاب کرے گا جو اپنی گرین ٹیکنالوجی کو مقامی سطح پر تیار کرتا ہے، اسے منظم کرتا ہے اور اس میں اختراعات لے کر آتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی