’طاقتور ریاستوں کے خوف میں، کمزور ممالک ایٹمی ہتھیار کو تحفظ کی علامت سمجھ رہے ہیں‘

شائع November 3, 2025

ایک ایسی دنیا میں کہ جہاں لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے اور عالمی نظام بکھر رہا ہے، ممالک کو اب ایک انتہائی غیر متوقع ماحول میں اپنی جغرافیائی سیاست کے منظرنامے میں کام کرنا پڑرہا ہے۔

طاقتور ریاستیں اور علاقائی قوتیں اپنی مرضی دیگر ممالک پر مسلط کرنے کے لیے جبر و طاقت کا سہارا لے رہی ہیں۔ طاقت کا استعمال یا استعمال کی دھمکی ان کے لیے سب سے پہلا حربہ اور تنازعات کو ’حل‘ کرنے کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔ طاقتور ممالک کی جانب سے اپنے مخالفین یا کمزور ریاستوں کی خودمختاری پر حملے تواتر سے ہورہے ہیں۔ بعض اوقات ان جارحانہ کارروائیوں کو ’پیشگی جنگیں‘ کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کی غزہ میں جنگ، اس کے ایران، شام، لبنان، یمن اور قطر پر حملے، روس کا یوکرین پر حملہ، ایران پر امریکی بمباری اور پاکستان کے خلاف بھارتی فوجی کارروائی، یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون پر عمل درآمد کرنے کے بجائے کس طرح طاقت کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔

کشیدگی اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے اس نئے دور نے ممالک کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایران اور یوکرین پر ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک نے حملہ کیا۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے رکن ایران پر دو ایٹمی طاقتوں نے بمباری کی۔

اس صورت حال نے مزید ممالک کو یہ سوچنے پر آمادہ کیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار ان کی سلامتی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ حالیہ واقعات سے سلامتی کے بحران سے دوچار ممالک نے جو سبق سیکھا ہے، وہ یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر ان پر بیرونی جارحیت اور خودمختاری پر حملوں کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

2025ء کی سالانہ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ مزید ممالک جوہری ہتھیار بنانے یا جوہری ہتھیار رکھنے پر غور کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے کہ جب ایٹمی طاقت رکھنے والی ریاستیں اپنے ہتھیاروں کے ذخائر کو مزید بڑھاتی ہیں اور انہیں مزید جدید بنا رہی ہیں جبکہ ہتھیاروں کے کنٹرول کی کوششیں مکمل طور پر رک چکی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ اعلان کہ امریکا دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کرے گا، بظاہر روس کے اس دعوے کے ردِعمل میں کیا گیا ہے کہ جس میں روس کے مطابق اس نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے، ایٹمی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ تاہم یہ اقدام خطرناک ہے کیونکہ اس سے جوہری پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرنے والا عالمی نظام مزید کمزور ہوتا جاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی فرسٹ کمیٹی نے جامع نیوکلیئر ٹیسٹ بان ٹریٹی (جس میں جوہری تجربات پر پابندی ہے) کی حمایت کرنے والی قرارداد پر ووٹ دیا۔ امریکا وہ واحد ملک تھا جس نے پہلی بار اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

سرہی پلوخی کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ایٹمی مسئلے اور ان وجوہات کا بروقت تجزیہ پیش کرتی ہے جن کی بنیاد پر ممالک نے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کی۔ ’دی نیوکلیئر ایج: این ایپک ریس فار آرمز، پاور اینڈ سروائیول‘ ایک غیرمعمولی تصنیف ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی تاریخ اور اس کے پسِ پردہ جغرافیائی سیاست پر مبنی ہے، خاص طور پر اس بات پر توجہ مرکوز کرتی ہے کہ ممالک کو انہیں حاصل کرنے پر کس امر نے مجبور کیا۔

یہ کتاب ان ہتھیاروں کے خطرات کے حوالے سے بھی خبردار کرتی ہے جو پوری انسانیت کو تباہ کر سکتے ہیں۔ سرہی پلخئی لکھتے ہیں کہ امریکا کے ایٹم بم بنانے کے بعد سے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کبھی حقیقی معنوں میں رکی ہی نہیں، ماسوائے 1980ء کی دہائی کے آخر اور 1990ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں کہ جب امریکا اور سوویت یونین نے تخفیفِ اسلحہ کے اقدامات پر اتفاق کیا اور کئی ممالک کو اپنے ایٹمی پروگرام ترک کرنے پر آمادہ یا مجبور کیا گیا۔

یہ عارضی وقفہ اس وقت ختم ہوا کہ جب 1998ء میں پاکستان اور بھارت نے ایٹمی تجربات کیے۔ اس سے دہائیوں قبل اسرائیل ایٹمی قوت حاصل کرچکا تھا۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر اور 1970ء کی دہائی کے اوائل میں فرانس اور برطانیہ کی مدد سے اسرائیل نے یہ کام کیا تھا۔ 2006ء تک شمالی کوریا بھی اس ایٹمی کلب کا حصہ بن چکا تھا۔ جبکہ دوسری جانب ایران بھی اپنے ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے تھا۔

سرہی پلوخی دلیل دیتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والی ریاستیں اپنے ذخائر کو جدید بنا رہی ہیں اور حد بندی کی کوئی بھی کوشش انہیں روکنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کیوبا میزائل بحران کے بعد سے زیادہ خطرناک مقام پر موجود ہے۔ ان کے مطابق، ایک بے قابو ہتھیاروں کی دوڑ ایٹمی جنگ کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے پھر چاہے وہ جنگ حادثاتی ہو یا دانستہ طور پر چھیڑی جائے۔

سرہی پلوخی بتاتے ہیں کہ ایک نیا خطرہ روس کے یوکرین کی ایٹمی تنصیبات پر حملے اور روسی رہنماؤں کی غیر ایٹمی ریاست کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اگرچہ انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا لیکن اسرائیل اور امریکا کے ایران کے ایٹمی مراکز پر حملے نے اس خطرے میں مزید اضافہ کیا ہے۔

سرہی پلوخی چاہتے ہیں کہ پہلی ایٹمی دوڑ سے حاصل ہونے والے اسباق، اگلے دوڑ کو روکنے یا اسے قابو میں کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ ان کی کتاب کا اصل نکتہ یہ جائزہ لینا ہے کہ بعض ممالک نے ایٹمی بم بنانے کا انتخاب کیا جبکہ دیگر نے اس کے حصول کی کوشش کو ترک کرنے کا انتخاب کیا۔

یہ وہ سوال ہے جس پر اس موضوع پر علمی حلقوں میں طویل عرصے سے بحث ہو رہی ہے اور مختلف محرکات جیسے کہ وقار، سلامتی، طاقت کے مظاہرے، ملکی سیاست اور رہنماؤں کی خواہشات کو ایٹمی طاقت کے حصول کے اسباب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

سرہی پلوخی کا بنیادی مؤقف ہے ایٹمی ہتھیار بنانے کے محرکات چاہے کوئی بھی ہوں، خوف ہمیشہ سب سے اہم وجہ ہوتا ہے یعنی ’کسی دوسرے ملک کے ایٹمی حملے یا دشمن کی اعلیٰ روایتی فوجی طاقت کے خوف کی وجہ سے وہ ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں سوچتے ہیں۔ سرہی پلخئی کہتے ہیں کہ ’ان کی سلامتی کے بارے میں خدشات جو خوف کے جذبات سے ظاہر ہوتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے اہم ہے کہ وہ جوہری طاقت کے حصول کی کوشش کیوں کرتے ہیں‘۔

سرہی پلوخی کہتے ہیں کہ یہ خوف مختلف طرح کے ردعمل پیدا کرنے کی وجہ بن سکتا ہے جن میں سے کچھ حقیقی خطرات پر مبنی ہوسکتے ہیں جبکہ کچھ غیر منطقی بھی ہوسکتے ہیں۔

ایٹمی تاریخ کے اعتبار سے اس خوف نے متضاد اثرات کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف اس نے ممالک کو مزید ہتھیار بنانے پر مجبور کیا لیکن دوسری جانب اس نے ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید کنٹرول بھی کیا اور اس کے انتظام کے لیے پیش گوئی کو بھی آسان بنایا۔ سرد جنگ کے دوران دشمنوں کے درمیان باہمی تباہی کے خوف کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں کو محدود اور کم کرنے کے معاہدے بھی ہوئے۔

جو امر سرہی پلوخی کو پریشان کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ آج کے غیر منظم عالمی ایٹمی ماحول میں خوف ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے زیادہ خطرناک مرحلے کا سبب بن سکتا ہے۔ وہ ایک مشورہ دیتے ہیں کہ ’ہمیں اپنے خوف پر دوبارہ قابو پانے کا طریقہ سیکھنا ہوگا، یاد رکھنا ہوگا کہ ایٹمی حد بندی کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ اس سلسلے میں ایٹمی بلیک میل کا شکار نہ بننا اور ایٹمی حریفوں کی مہم جوئی کو بڑھاوا نہ دینا کتنا ضروری ہے‘۔

تو جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کے پیچھے عوامل کیا تھے؟ پاکستان کا جوہری ہتھیار تیار کرنے کا فیصلہ بنیادی طور پر سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے تھا۔ اس فیصلے میں دو اہم واقعات نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سب سے پہلے 1971ء میں بھارت کی فوجی مداخلت جس کی وجہ سے پاکستان کو شکست ہوئی اور اسے اپنے مشرقی لخت کو کھونا پڑا۔ دوسرا اہم واقعہ 1974ء میں بھارت کا ایٹمی تجربہ تھا۔

1971ء کی شکست کے بعد، پاکستان نے ’دوبارہ کبھی نہیں‘ کی ذہنیت اپنائی اور بھارت سے مزید حملوں کا خدشہ ظاہر کیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پاکستان تحفظ کے لیے صرف اپنے آپ پر انحصار کر سکتا ہے۔

فیروز خان جنہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں اہم کتاب ’ایٹنگ گراس‘ تحریر کی تھی، بتاتے ہیں کہ 1971ء کی رسوائی، پاکستان کی جوہری کوششیں جو پُرامن مقاصد کے لیے تھیں، اسے بم کے حصول کی سمت پر لے گئی۔

جیسا کہ جارج پرکویچ اور دیگر نے بھی نشاندہی کی ہے کہ بھارت میں ایٹمی ہتھیار بنانے کا محرک کسی ملک کے حملے کا خوف نہیں تھا بلکہ اس نے بڑی طاقت بننے اور وقار کی خواہش میں ایسا کیا تھا۔

فیروز خان کہتے ہیں کہ یہ چین کے ساتھ مقابلے کا معاملہ بھی تھا جو بھارت کے 1974ء اور 1998ء کے ایٹمی تجربات کی بنیاد بنا۔ 1962ء کا چین-بھارت تنازع اس محرک کو مزید تقویت دینے والا عنصر بن کر سامنے آیا۔

موجودہ عالمی عدم استحکام اور علاقائی حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر، سرہی پلخئی نے اپنی کتاب کے اختتام میں سختی سے خبردار کیا ہے۔ ان کے مطابق مستقبل میں دنیا میں مزید 40 ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک سامنے آسکتے ہیں جس سے ایٹمی ہتھیاروں کے دانستہ یا حادثاتی استعمال کے خطرات میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوگا۔

یہ ایک ایسی دنیا کے لیے تشویشناک سوچ ہے جو پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 11 نومبر 2025
کارٹون : 10 نومبر 2025