بہار انتخابات مودی کی اقلیتی حکومت کیلئے کڑا امتحان
243 نشستوں والی بہار اسمبلی کے دو مراحل پر مشتمل انتخابات آج (جمعرات) سے شروع ہو رہے ہیں جنہیں وزیراعظم نریندر مودی کی اقلیتی حکومت کے استحکام کے لیے نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جماعت جنتا دل (یونائیٹڈ) مودی حکومت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ 2024 کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نشستیں کم ہو کر 240 رہ گئی تھیں، جو لوک سبھا میں 272 کی اکثریت سے کہیں کم ہیں۔
نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) کے 12 ارکان پارلیمنٹ اور آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندر بابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی کے 16 ارکان، مودی کے سیاسی مستقبل کے لیے فیصلہ کن کردار رکھتے ہیں، مودی کی قیادت میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو محض 21 ارکان کی معمولی برتری حاصل ہے، اور بہار و آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں اتحادی مجموعی طور پر 28 ارکان کے ساتھ اس اکثریت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
این ڈی اے کو ایک ایسے لین دین پر مبنی اتحاد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس میں مودی کی بی جے پی بہار میں نتیش کمار کی اقلیتی حکومت کی حمایت کرتی ہے، اور بدلے میں نتیش کمار مودی حکومت کو سہارا دیتے ہیں۔
تاہم اگر بہار اسمبلی کے انتخابات میں نتیش کمار کی پوزیشن کمزور ہوئی تو اس کے اثرات مودی کے مرکز میں ان پر انحصار پر بھی پڑ سکتے ہیں، نائیڈو بھی ایک سخت سودے باز سیاست دان سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنا سیاسی سفر یوتھ کانگریس سے شروع کیا تھا۔
لیکن بہار کے 6 اور 11 نومبر کے ریاستی انتخابات کی اہمیت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے 2024 میں اپنی جماعت کے ساتھ نمایاں کم بیک کیا، جس نے انہیں لوک سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف کی حیثیت دلائی، تاہم یہ کامیابیاں اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعاون کے نتیجے میں حاصل ہوئیں، خصوصاً اتر پردیش میں، جہاں سماج وادی پارٹی کے ساتھ اشتراک کے باعث مودی کی نشستوں میں نمایاں کمی آئی۔
اتر پردیش ہی وہ ریاست تھی جہاں سے بی جے پی نے اپنی پارلیمانی اکثریت گنوائی، اور اب راہول گاندھی اسی فارمولے کو لالو پرساد یادو کے بیٹے کے ساتھ اتحاد کے ذریعے بہار میں دہرانا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ فائدہ مند امر ہے کہ بہار واحد ہندی بولنے والی ریاست ہے جہاں بی جے پی اب تک اپنے اتحادیوں سے اقتدار چھیننے میں ناکام رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دونوں جانب موجود دباؤ اور خطرات کے پیشِ نظر کیا بی جے پی اپوزیشن کو برتری حاصل کرنے دے گی؟ راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ انتخابی کمیشن بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کر کے بہار کے انتخابات چرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان کا یہ الزام اس بنیاد پر ہے کہ حالیہ ریاستی انتخابات میں ہریانہ اور مہاراشٹرا میں مبینہ طور پر ووٹر فہرستوں میں ہیرا پھیری کی گئی، جس کے نتیجے میں کانگریس کو غیر متوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
الزام کا مرکز انتخابی کمیشن کی جانب سے ووٹر فہرستوں کی ملک گیر خصوصی نظرِثانی مہم ہے، جیسا کہ بہار میں بھی اسپیشل انٹینسو رویژن تنازع کے دوران کی گئی، مودی حکومت نے الیکشن کمشنر کی تقرری کے ضابطے تبدیل کر کے وزیراعظم کو اپنے من پسند شخص کے تقرر کا مکمل اختیار دے دیا تھا۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے حق میں کام کر رہا ہے اور مسلم ووٹرز سمیت ان افراد کے نام حذف کر رہا ہے جنہیں بی جے پی مخالف سمجھا جاتا ہے، اس معاملے نے مغربی بنگال، تامل ناڈو اور کیرالا کی اپوزیشن حکومتوں کو بھی متحرک کر دیا ہے جو کانگریس کے ساتھ مل کر اس الزام کو ایک قومی تحریک کی شکل دے رہی ہیں۔
اس مہم سے سب سے زیادہ خطرہ مغربی بنگال کی ممتا بینرجی حکومت کو ہے جہاں مسلم آبادی ان کی مضبوط ووٹنگ طاقت سمجھی جاتی ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ انتخابی فہرستوں کی آئندہ نظرِثانی کے عمل سے بی جے پی کے زیرِ اقتدار آسام اور تریپورہ کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جس پر اپوزیشن نے سخت اعتراض کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بہار میں نتیجہ کیا نکلے گا؟ ریاست کا ذات پات پر مبنی سیاسی نظام جتنا اہم ہے اتنا ہی پیچیدہ بھی، بہار نیپال سے متصل ہے اور دونوں کے درمیان کھلی سرحد ہے، جہاں حالیہ واقعات کو بھی بہار میں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔
ان انتخابات کی مہم میں نوجوان نسل مرکزی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ بہار بھارت کی سب سے بڑی نوجوان آبادی رکھنے والی ریاست ہے۔
آن لائن جریدے ’دی وائر‘ کے مطابق بہار کی تقریباً 58 فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر ہے اور اسی لیے وہ ‘جنریشن زیڈ’ کے زمرے میں آتی ہے، ووٹروں میں ہر 4 میں سے ایک ووٹر اسی نسل سے تعلق رکھتا ہے، جن میں سے 14 لاکھ 70 ہزار پہلی بار ووٹ ڈالنے والے ہیں۔












لائیو ٹی وی