پاکستان میں بقا کی جدوجہد کرتے نایاب پرندے جن کے وجود سے ہم ناآشنا ہیں
یہ سب ایک عام سی شام میں رات کے کھانے کے بعد بھاپ اٹھتے چائے کے کپ سے شروع ہوا۔ میں نے ایک لمبے درخت پر ہریال نامی پیلے پنجوں والے سبز کبوتر کی احتیاط سے اپنا گھونسلا بناتے ہوئے ایک ویڈیو اپنے دوستوں کو دکھائی۔ میرے دوستوں کا ردعمل یہ تھا کہ وہ ششدر تھے اور وہ یقین نہ کرنے کی کیفیت میں تھے۔
’کیا ایسا کبوتر پایا جاتا ہے؟ اور پاکستان میں؟‘ ان کے چہروں کے تاثرات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اگرچہ ہم ایشیا کے سب سے زرخیز پرندوں والے ماحولیاتی نظام میں رہتے ہیں لیکن یہاں پائے جانے والے بیشتر پرندے اب بھی ہمارے لیے اجنبی ہیں۔
ہم شاہین کو سراہتے ہیں، فاختہ کو محبت کی علامت سمجھتے ہیں جبکہ چڑیوں کی کم ہوتی تعداد پر افسوس کرتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں 700 سے زائد پرندوں کی اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر ہماری ثقافتی یادداشت کا حصہ نہیں جنہیں ہم جانتے بھی نہیں۔ اس ماحولیاتی نظام میں ہمارے ان بھولے بسرے ہمسایوں میں تین پرندے اپنی انفرادیت کے باعث نمایاں ہیں جوکہ ہریال، رولر اور ہارن بل ہیں۔
ان میں سے ہر ایک پرندہ ہمارے ماحولیاتی نظام میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ہر ایک ایک ایسی کہانی سناتا ہے جو ہمیں فطرت کے ساتھ بقائے باہمی کا مطلب سمجھاتی ہے خاص طور پر ایسے دور میں کہ جب ہم نے اپنے اردگرد کے ماحول پر توجہ دینا چھوڑ دیا ہے۔
سایہ دار درختوں پر بسیرا کرنے والے ہریال

عام کبوتروں کے برعکس جو لاہور کی لبرٹی مارکیٹ یا صدر میں زمین پر ٹکڑے چن کر کھاتے ہیں، ہریال کا سائنسی نام Treron phoenicoptera ہے جوکہ چھتری دار درختوں پر بسیرا کرنے والی مخلوق ہے۔ زیتون جیسی سبز رنگت کے ساتھ ان کبوتروں کا قدرتی ماحول کے ساتھ ایسا امتزاج بنتا ہے کہ یہ اکثر نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود اوجھل ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ جب یہ کُھلی جگہ پر بیٹھے ہوں تب بھی وہ نظر نہیں آ پاتے۔
ہریال ایسے پرندے ہیں جو صرف پھلوں کی خوراک پر زندہ رہتے ہیں۔ یہ برگد، پیپل (مقدس برگد)، نیم اور دیگر پھل دار درختوں سے غذائیت حاصل کرتے ہیں اور انجیر اور بیریز کو بغیر چبائے نگل جاتے ہیں۔
بیجوں کو طویل فاصلے تک پھیلانے کا کام کرکے یہ پاکستان کے باغات میں باغبان کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ ان کے گھونسلے چَھڑیوں سے بنے ہوتے ہیں جو اکثر بلند درختوں پر بنائے جاتے ہیں۔ مادہ دو سفید انڈے دیتی ہے جنہیں دونوں والدین باری باری سینکتے ہیں۔ ان کی نرم کو کو کی آواز شہر کے کبوتروں کی نسبت زیادہ پُرسکون اور مراقبے کی طرح لگتی ہے۔
ہریال زیادہ تر اپنے گھونسلوں کے قریب رہنے والے پرندے ہیں لیکن جب پھل دار درخت پھل دیتے ہیں تو وہ مقامی طور پر گھومتے ہیں۔ جب کچھ درخت پک جاتے ہیں تو پورے ریوڑ خوراک کے لیے حرکت کر سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) انہیں مجموعی طور پر معدومیت کے خطرے سے دوچار قرار نہیں دیتی اور یہ جنوبی ایشیا میں اب بھی عام ہیں۔ لیکن پاکستان میں ان کے گھر ختم کیے جا رہے ہیں۔ دیہاتوں اور قصبوں میں پرانے درختوں کو کاٹنے کا مطلب ہے کہ ان کے گھونسلوں اور خوراک کے لیے درختوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔ چونکہ وہ نظر نہیں آتے اور لوگ انہیں درپیش خطرات کو نہیں دیکھتے، اس لیے ان کی نسل اور بھی زیادہ کمزور ہوتی جارہی ہے۔
ہریال کا خاموش وجود یاد دلاتا ہے کہ تمام کبوتر دھول اور کنکریٹ کے درمیان نہیں رہتے۔ ان میں سے کچھ جنگلات کے احساس اور پھل دار درختوں کی یاد میں مسکن بنانا چاہتے ہیں۔
آسمان میں کرتب دکھانے والے رولرز

جہاں ہریال اپنی رنگت کی وجہ سے ماحول میں پوشیدہ رہتا ہے وہیں رولر (Coracias benghalensis) طمطراق سے نمایاں ہوتا ہے۔ یہ پرندہ اپنی فیروزی، کوبالٹ اور بھوری رنگت کی وجہ سے سورج کی روشنی میں چمکتا ہے کہ جب یہ اپنے ساتھی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہوا میں کرتب کرتے ہوئے گھومتا ہے۔ ایکروبیٹک پروازوں کی وجہ سے اسے ’رولر‘ کہا جاتا ہے۔
رولر بڑے کیڑے مکوڑوں، بھنبھوروں، ٹڈی دل اور کبھی کبھار چھوٹے رینگنے والے جانوروں کو بطور غذا استعمال کرتے ہیں۔ کھیتوں کے کنارے بجلی کے تاروں یا کھمبوں پر بیٹھ کر یہ شکار پر حیران کُن رفتار سے جھپٹتے ہیں۔ کسان کیڑوں سے نجات دلانے کی وجہ سے خاموشی سے رولر کی قدر کرتے ہیں اور وہ اس بارے میں کم ہی بات کرتے ہیں۔
رولر اپنے گھونسلے درختوں کے سوراخوں میں یا کبھی کبھار عمارتوں کی دراڑوں میں بناتے ہیں۔ یہ تقریباً تین سے پانچ انڈے دیتے ہیں۔ افزائشِ نسل کے موسم میں رولر کے ہوائی کرتب اور بھی شاندار ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے کھیتوں کا آسمان ایک اسٹیج میں بدل جاتا ہے۔
رولر زیادہ تر پاکستان کے میدانی علاقوں میں رہتے ہیں حالانکہ بعض اوقات موسم سرما میں شمال سے پرندے جنوب کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔ یہ شاہراہوں اور کھیتوں سے گزرتے آسانی سے نظر آجاتے ہیں۔ آئی یو سی این ان کی معدومیت کے حوالے سے تشویش ظاہر نہیں کرتا، اس لیے یہ بھی عام ہیں۔ تاہم بہت سے کھیتوں کے پرندوں کی طرح، انہیں کیڑے مار ادویات کے بھاری استعمال سے خطرہ لاحق ہے۔ ان علاقوں میں جہاں کیمیکلز کی وجہ سے کیڑے مر جاتے ہیں، رولر کی تعداد میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔
یہ رولر پاکستان میں اپنا الگ ایئرشو پیش کرتے ہیں جہاں وہ زرعی زمینوں کے اوپر آسمان میں رنگوں اور کرتب کا مظاہرہ پیش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم میں سے بیشتر انہیں دیکھ کر بھی نظر انداز کردیتے ہیں کیونکہ ہماری نظریں سڑکوں پر جمی ہوتی ہیں جن پر ہم سفر کررہے ہوتے ہیں اور اوپر اُڑتے چھوٹے پرندوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے کرتب پر ہم نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔
قدیم جنگلات کا نگہبان، ہارن بل

جہاں رولر اپنی رنگت سے محظوظ کرتا ہے اور ہریال چھپ جاتا ہے، وہیں ہارن بل سب کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اپنے بڑی خمیدہ چونچ اور اوپر سجے کسک کے ساتھ، ہارن بل ایسا پرندہ لگتا ہے کہ گویا اس کا تعلق قبل از تاریخ کے وقت سے ہو جیسے وہ ڈایناسورز کے دور کی بازگشت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ پاکستان میں ہندوستانی گرے ہارن بل (Ocyceros birostris) سب سے زیادہ عام ہیں جو سندھ، جنوبی پنجاب اور دیگر مقامات کے پرانے درختوں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں پائے جاتے ہیں۔
ہارن بل ویسے تو پھل خور پرندے ہیں لیکن یہ کیڑے مکوڑے، چھپکلیاں اور حتیٰ کہ چھوٹے ممالیہ جانور بھی کھاتے ہیں۔ پھلوں کے بیج پھیلانے میں ان کا کردار بھی بےمثال ہے۔ یہ بڑے پھل بغیر چبائے نگل جاتے ہیں اور بیج کو اصل درخت سے دور پھینک دیتے ہیں جس سے جنگل کی تجدید یقینی ہوتی ہے۔
ہارن بل پرندوں میں گھونسلے بنانے کی سب سے حیرت انگیز عادت ہے۔ مادہ درخت کے ایک سوراخ میں جاتی ہے اور اپنے آپ کو کیچڑ سے اندر بند کر لیتی ہے جس سے صرف ایک چھوٹا سا کٹا ہوا حصہ رہ جاتا ہے۔ نر اس کے لیے کھانا لاتا ہے اور بعد میں بچوں کو بھی اسی سوراخ سے خوراک دیتا ہے۔ وہ اس وقت تک بند رہتی ہے جب تک کہ بچے اتنے مضبوط نہ ہوجائیں کہ وہ گھونسلے سے نکل جائیں۔ یہ غیرمعمولی طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہارن بل زندہ رہنے کے لیے ٹیم ورک اور پرانے بڑے درختوں پر کتنا انحصار کرتے ہیں۔
ہارن بل ہجرت نہیں کرتے، وہ پورا سال ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں۔ جب جنگلات کاٹے جاتے ہیں تو اس سے ان کے ٹھکانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہندوستانی گرے ہارن بل کو اب بھی معدومیت کے خطرات سے دوچار نہیں سمجھا جاتا لیکن چونکہ یہ بڑے، پرانے درختوں پر منحصر ہے، اس لیے درختوں کی کٹائی کا معاملہ ان کے لیے حساس ہے۔ شہری ترقی اور پرانے درختوں کی کٹائی ان پرندوں کو آہستہ آہستہ ان مقامات سے باہر جانے پر مجبور کر رہی ہے جو کبھی ان کے مسکن ہوا کرتے تھے۔
اُڑتے ہارن بل کے پروں کی مضبوط آوازیں اور اس کی شان سے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی قدیم زمانے کا حصہ ہیں۔ انہیں کھونے کا مطلب فطرت کی ایک زندہ کہانی کو کھونا ہوگا جو ابھی تک ہمارے جنگلات میں چل رہی ہے۔
جب لوگ پاکستان کے ماحول کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ عام طور پر ڈرامائی مثالوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جیسے برفانی چیتے، انڈس ڈولفن یا مینگروو کے جنگلات وغیرہ۔ ان پرندوں کی پُرسکون زندگی اس ماحولیاتی منظرنامے کی عکاسی کرتی ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ ہریال پھلدار درختوں کی نمائندگی کرتے ہیں، رولر کیڑوں والے کھیتوں کی نشاندہی کرتا ہے اور ہارن بل پرانے جنگلات کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان پر دھیان دینے کا مطلب ہمارے اردگرد فطرت میں اب بھی کیا مخلوقات زندہ ہیں، ان پر توجہ دینا ہے۔
ہمارا مسئلہ صرف انواع ختم ہونا نہیں بلکہ توجہ ختم ہونا بھی ہے۔ ہماری ثقافت میں جب کوئی پرندہ پوشیدہ ہوجاتا ہے تو اس کے زوال پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اگر میرے پڑھے لکھے دوست بھی ہریال کبوتر کے بارے میں نہیں جانتے تو ہم ان سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ جب اس کے باغات کاٹے جائیں گے تو انہیں بچانے کے لیے مدد کو کوئی آئے گا؟
ہم انہیں نظرانداز کرنا چھوڑ سکتے ہیں جس کے لیے ہمیں زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوگا۔ پھلدار درختوں پر نظر رکھنا ہوگی جہاں زیتون رنگ کی ایک جھلک بھی ہریال ہوسکتا ہے۔ گندم کے کھیت کے پاس گاڑی روک کر فیروزی رنگ کے رولر کے کرتب کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔ سندھ کے کسی پرانے باغ میں چلے جائیں اور اگر قسمت نے اجازت دی تو آپ ہارن بل کے پھڑپھڑاتے پَر کی گہری آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔
پرندے یہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ سے یہیں ہیں۔ جو چیز نہیں ہے وہ ہماری توجہ نہ دینے کی عادت ہے۔ اور توجہ دے کر ہی ہم ان کے تحفظ کے لیے پہلا قدم اٹھا سکتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی