• KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Clear 12.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.6°C
  • KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Clear 12.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.6°C

برطانیہ میں پناہ کے نظام میں بڑی تبدیلی: مستقل رہائش کیلئے 20 سال کا انتظار لازم

شائع November 16, 2025
فائل فوٹو: رائٹرز
فائل فوٹو: رائٹرز

برطانیہ نے پناہ گزینوں کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی ہے جس کے تحت پناہ گزینوں کا درجہ عارضی کیا جائے گا اور مستقل رہائش کے حصول کے لیے انتظار کی مدت کو چار گنا بڑھا کر 20 سال کر دیا جائے گا۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حکومت اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت کر رہی ہے، خاص طور پر فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر آنے والوں کے خلاف، تاکہ ریفارم یوکے جیسی مقبول جماعت کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کو روک سکے، جو امیگریشن کے بیانیے کی قیادت کر رہی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈنمارک کے طریقۂ کار سے رہنمائی لے رہی ہے — جو یورپ میں سخت ترین پالیسیوں میں شمار ہوتا ہے — جہاں کئی ممالک میں تارکین وطن مخالف جذبات بڑھنے سے پابندیاں مزید سخت ہوئی ہیں، جس پر حقوقِ انسانی کے گروہوں نے سخت تنقید کی ہے۔

عارضی درجہ، باقاعدہ جائزہ

برطانوی وزارت داخلہ نے ہفتہ کی شب جاری کردہ بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کے حصے کے طور پر کچھ پناہ گزینوں کو معاونت فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری — جس میں رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس شامل ہیں — ختم کر دی جائے گی۔

وزیر داخلہ شبانہ محمود کی سربراہی میں چلنے والے محکمے نے کہا کہ یہ اقدامات اُن پناہ گزینوں پر لاگو ہوں گے جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں، اور ان پر بھی جنہوں نے قانون توڑا ہو۔ وزارت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کی جانے والی مدد اُن افراد کو ترجیحی بنیادوں پر دی جائے گی جو معیشت اور مقامی کمیونیٹیز میں کردار ادا کرتے ہیں۔

وزارتِ داخلہ نے یہ بھی کہا کہ پناہ گزینوں کو تحفظ اب “عارضی ہوگا، باقاعدگی سے اس کا جائزہ لیا جائے گا، اور اگر اُن کا وطن محفوظ قرار پایا تو درجہ منسوخ کر دیا جائے گا۔”

وزیر داخلہ شبانہ محمود نے اتوار کو اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہمارا نظام دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں خاصا فراخدل ہے، جہاں پانچ سال بعد آپ کو مؤثر طور پر خودکار طور پر مستقل رہائش مل جاتی ہے۔ ہم اس میں تبدیلی لائیں گے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ان تبدیلیوں کے تحت پناہ گزین کا درجہ ہر ڈھائی سال بعد پرکھا جائے گا، جبکہ مستقل رہائش تک پہنچنے کا راستہ اب “20 سال کا کہیں زیادہ طویل مرحلہ” ہوگا۔

شبانہ محمود نے کہا کہ وہ پیر کو ان تبدیلیوں کی مزید تفصیلات فراہم کریں گی، جن میں یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 8 سے متعلق اعلان بھی شامل ہوگا۔

حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ ECHR میں رہنا چاہتی ہے مگر آرٹیکل 8 — جو خاندان کی یکجائی کے حق سے متعلق ہے — کی تشریح تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

شبانہ محمود نے کہا کہ اس آرٹیکل کو “اس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کا مقصد اُن افراد کی ملک بدری کو روکنا ہے جو ہمارے امیگریشن قوانین کے مطابق اس ملک میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔”

برطانوی حکومت کے سخت اقدامات کو تنقید کا سامنا ہے۔ 100 سے زائد برطانوی فلاحی تنظیموں نے شبانہ محمود کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ وہ “مہاجرین کو موردِ الزام ٹھہرانے اور دکھاوے کی پالیسیوں” کو ختم کریں، جو نفرت اور تشدد میں اضافہ کر رہی ہیں۔

رائے عامہ کے جائزوں میں ظاہر ہوا ہے کہ امیگریشن برطانوی ووٹرز کے لیے معیشت سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ گرمیوں میں اُن ہوٹلوں کے باہر احتجاج ہوئے جہاں پناہ گزینوں کو سرکاری خرچے پر ٹھہرایا گیا تھا۔

مارچ 2025 تک کے سال میں مجموعی طور پر 109,343 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی — جو پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ اور 2002 کی بلند ترین سطح سے 6 فیصد زیادہ ہے۔

شبانہ محمود نے کہا کہ حکومت مزید “محفوظ اور قانونی” راستے کھولنے کی کوشش کرے گی، کیونکہ ان کے مطابق برطانیہ کو مشکلات سے بھاگنے والوں کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

برطانوی حکومت ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک سے متاثر

وزارتِ داخلہ نے کہا کہ اصلاحات کا مقصد ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کے معیار کا “مقابلہ کرنا اور بعض شعبوں میں اس سے آگے بڑھنا” ہے، جہاں پناہ گزین کا درجہ عارضی ہوتا ہے، معاونت شرائط سے مشروط ہوتی ہے، اور معاشرے میں بامعنی انضمام کی توقع کی جاتی ہے۔

ڈنمارک میں پناہ گزینوں کو عام طور پر دو سال کے لیے عارضی رہائشی اجازت نامے دیے جاتے ہیں، جن کی مدت ختم ہونے پر انہیں دوبارہ درخواست دینا ہوتی ہے۔ اگر ان کا ملک محفوظ قرار پائے تو انہیں واپس بھیجا جا سکتا ہے، جبکہ شہریت حاصل کرنے کا راستہ بھی طویل کر دیا گیا ہے۔

وزارتِ داخلہ نے کہا کہ ڈنمارک کی زیادہ سخت امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے پناہ کی درخواستیں 40 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہیں، اور مسترد شدہ درخواست گزاروں میں سے 95 فیصد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

ڈنمارک کی یہ اصلاحات — باوجود اس کے کہ وہ ECHR کا رکن ہے — شدید تنقید کی زد میں رہی ہیں۔ حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے مہاجرین کے لیے ماحول زیادہ مخاصمانہ ہو گیا ہے، اور پناہ گزینوں کو غیر یقینی حالات میں طویل عرصے تک رہنا پڑتا ہے۔

برطانیہ کی ریفیوجی کونسل نے ’ ایکس ’ پر لکھا کہ پناہ گزین خطرات سے بھاگتے وقت مختلف ممالک کے پناہ کے نظام کا موازنہ نہیں کرتے، بلکہ وہ برطانیہ اس لیے آتے ہیں کہ یہاں ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں، انہیں انگریزی کی تھوڑی بہت سمجھ ہوتی ہے، یا یہاں موجود تعلقات انہیں محفوظ طریقے سے نئی زندگی شروع کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025