• KHI: Clear 18.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.7°C
  • KHI: Clear 18.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.7°C

کیا بہار انتخابات میں مودی کی کامیابی کے بعد پاک-بھارت تناؤ میں کمی واقع ہوگی؟

شائع November 18, 2025

بہار کے انتخابات سے جو اسباق ملے ہیں، ان کے اندرونِ ملک اثرات تو مرتب ہوں گے ہی لیکن ان اثرات کو ہمسایہ ممالک میں بھی غور سے دیکھا جائے گا۔

اپریل میں جب وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے ردِعمل میں انتخابی ماحول میں رچے بہار سے پاکستان سے جنگ کا نعرہ لگایا تو اسے انتخابی نتائج کو اس انداز میں متاثر کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا جس سے ہم سب واقف ہیں۔

اگر واقعی جنگی ماحول اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ 4 روزہ کشیدگی نے بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے میں کردار ادا کیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا بہار میں مودی کی حکمران نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی کامیابی سرحد پر تناؤ کو مزید ہوا دے گی؟ یا اب جبکہ پاکستان سے محاذ آرائی کا انتخابی مقصد پورا ہوچکا ہے تو کیا کشیدگی میں کمی واقع ہوگی؟ یا پھر مودی کو بہار انتخابات کی جیت اگلے سال کے اہم مغربی بنگال انتخابات میں یہی حکمتِ عملی کو دہرانے پر آمادہ کرے گی؟

مودی کے حامیوں اور ان کے مخالفین دونوں کا بیانیہ یہ ہے کہ ایک یا دو فوجی واقعات نے حقیقتاً وزیرِ اعظم کو انتخابی طور پر فائدہ پہنچایا۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پلوامہ حملہ اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ ہونے والی فضائی جھڑپ نے 2019ء کے انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت کو سیاسی فوائد پہنچائے۔

اس بات کی پروا نہ کریں کہ ان جھڑپوں میں ہونے والی بعض چیزیں بھارت کے حق میں نہیں تھیں جیسے پلوامہ واقعے کے بعد ایک بھارتی پائلٹ کی پاکستان میں شرمناک گرفتاری اور وسیع پیمانے پر یہ دعوے کہ پاکستان نے آپریشن سندور/بنیان مرصوص میں کئی بھارتی طیارے مار گرائے جن کی بازگشت صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کرتے نظر آئے۔ ان مناظر کو حکومت نواز ٹی وی چینلز نے یا تو نظرانداز کر دیا یا انہیں بڑی کامیابی بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا۔

ایک ایسی مثال بھی ہے جو اس خیال کو کمزور کرتی ہے کہ انتخابات میں فتح حاصل کرنے میں جنگ ہمیشہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔ من موہن سنگھ نومبر 2008ء میں ہونے والے ممبئی حملوں پر جارحانہ ردعمل نہ دے کر بھی دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ جنگ کی دھمکی دینے کے بجائے، انہوں نے اپنے وزیر داخلہ کو تبدیل کیا اور دہشت گردی سے نمٹنے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پُرامن طریقے تلاش کرنے کی کوشش کی۔

من موہن سنگھ نے مصر میں اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران کشمیر کے ساتھ ساتھ بلوچستان پر بھی بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ تاہم یہ تجویز دونوں طرف کی اسٹیبلشمنٹ نے مسترد کر دی تھی۔

بھارتی اپوزیشن جماعتیں بہار کے نتائج کے حوالے سے شکایات کررہی ہیں۔ کانگریس جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے اتحادیوں کے ’غیرمعمولی 90 فیصد کامیابی کی شرح‘ پر حیرانی کا اظہار کررہی ہے یعنی این ڈی اے نے جن نشستوں میں سے انتخابات لڑے، ان میں سے 90 فیصد میں فتح حاصل کی۔

کانگریس کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی نے اکتوبر 1984ء میں اپنی والدہ کے قتل کے بعد لوک سبھا کی 514 نشستوں میں سے 404 نشستیں جیتیں لیکن وہ بھی بہار انتخابات میں این ڈی اے کے دعوے کے برابر کامیابی کی شرح حاصل نہیں کر پائے تھے۔ اس ضمن میں یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں ہو سکتی ہیں۔

یہاں دو مسائل ہیں جنہیں اپوزیشن کو حل کرنا چاہیے۔ اگر انتخابات کے نتائج میں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی ہے تو یہ بری خبر نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کو کم از کم فاشزم سے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے کیونکہ فاشزم عوامی حمایت پر منحصر ہوتا ہے جس کے لیے بی جے پی کو اب بھی کوشش کرنی پڑے گی۔

دوسری جانب اگر فوجی کارروائیاں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے لگیں تو بھارت مزید عسکریت پسند بن سکتا ہے جس سے ہندوتوا کے لیے مضبوط اثر و رسوخ حاصل کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں بڑا سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس مودی کی طاقتور دائیں بازو کی حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے کیا منصوبہ ہے؟

راہول گاندھی اور ان کی ٹیم نے مودی دورِ حکومت کی بعض سنگین انتخابی بدعنوانیوں کی تحقیقات کی ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر بےضابطگی میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ تحقیق کے نتائج دلچسپ اور قابلِ توجہ ہیں جن میں ایک موزوں مثال برازیلین ہیئر ڈریسر لارسا نیری کا کیس ہے جس کی تصاویر بھارت بھر کے ووٹر لسٹس میں شامل تھیں۔

تاہم یہ اہم تحقیقاتی کام کرنے کے بعد راہول گاندھی کی پارٹی نے نشستوں کی تقسیم کے طریقہ کار پر ایک مقامی اتحادی کے ساتھ بحث کرکے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ اس لڑائی نے دونوں فریقین کو نقصان پہنچایا۔

پورے پس منظر کے بغیر بہار کے انتخابی نتائج عام لگ سکتے ہیں۔ لالو یادو کی مرکزی اپوزیشن پارٹی، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے درحقیقت سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن اس نے اسمبلی کی 243 نشستوں میں سے صرف 25 پر کامیابی حاصل کی۔ آر جے ڈی کو کُل ووٹوں کا 23 فیصد ملا جو مودی کے حلیف، وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) سے زیادہ ہے جسے 19.25 فیصد ملے۔ یہ غیر معمولی بات ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی اتنی کم نشستیں حاصل کر پائی۔

بی جے پی نے 20.08 فیصد ووٹ شیئر حاصل کیا۔ اس کے باوجود بی جے پی اور جے ڈی یو نے بالترتیب 89 اور 85 نشستیں جیتیں۔ اسی طرح، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے 1.85 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 5 نشستیں حاصل کیں جبکہ کانگریس جس کے پاس 8.71 فیصد ووٹ تھے، صرف 6 نشستیں جیت سکی۔

اسی طرح کے عجیب و غریب نتائج بائیں بازو کی جماعتوں کے حصے میں بھی آئے اور یہ بھارت کے بہت سے انتخابات میں عام ہے جو ملک کے ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ نظام کے عکاس ہیں جہاں ایک نشست جیتنا کُل ووٹوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

1977ء میں اندرا گاندھی کو جنتا پارٹی نے صرف 2 فیصد ووٹ کے فرق سے شکست دی تھی۔ وہ 40.98 فیصد ووٹ لے سکی تھیں جبکہ اپوزیشن اتحاد کے پاس صرف 43 فیصد ووٹ تھے۔ مزید یہ کہ راہول گاندھی کے لیے اہم بات یہ ہے کہ اس شکست میں بھی اندرا گاندھی نے 543 رکنی لوک سبھا میں 154 سیٹیں جیت لیں۔

اس کے برعکس، حالیہ انتخابات میں کانگریس نے پہلے کی نسبت نصف نشستیں جیتنے کے لیے بھی جدوجہد کی۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اگر راہول گاندھی اپنی پارٹی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اور کانگریس کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔

نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جہاں وہ مدھیہ پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر میں دھڑے بندی کے ذریعے ریاستی حکومتیں ختم کرنے اور انتخابی کمیشن کے سامنے سوالیہ طریقوں سے کامیابی حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ تو پھر اپوزیشن جماعتوں کے سامنے سب سے اہم کام کیا ہے؟

انہیں شاید ابتدائی طور پر اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، بائیں بازو کو مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کو کمزور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا بی جے پی کو پیچھے دھکیلنا چاہیے؟ کیرالہ میں بھی بی جے پی کو دور رکھنے کے لیے اسی قسم کی قربانیاں ضروری ہیں۔

کیا اپوزیشن کو واقعی یقین ہے کہ وہ انتخابات کے ذریعے کسی حقیقی جمہوری عمل میں حصہ لے رہی ہے؟ یا آج کے انتخابات محض ترتیب شدہ رسمی کارروائیاں ہیں جن کے نتائج پہلے سے طے شدہ ہے؟ الیکشن کمیشن پر مضبوط کنٹرول اس کی واضح علامت ہے۔

اپوزیشن نے ’دوسری تحریکِ آزادی‘ کے بارے میں بھی غور کیا۔ کیا انہیں گاندھی کی طرح سڑکوں پر نکلنا چاہیے؟ اور شاید گاندھی کی طرح پاکستان سے بات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ انتہائی قوم پرست اپوزیشن جماعت بھی بی جے پی کو اس کے عسکری میدان میں شکست نہیں دے سکتی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025