• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

کیا کسی خاص حکمت عملی کے تحت بابری مسجد کو 6 دسمبر کو شہید کیا گیا؟

شائع December 3, 2025

6 دسمبر وہ تاریخ ہے کہ جب 33 سال قبل بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔

1992ء کے فسادات سے قبل یہ دن بھارت کی دلت ذات اور ان کے حامیوں کی جانب سے انتہائی عقیدت سے ان کے ہیرو بھیم راؤ امبیڈکر کے یومِ وفات کے طور پر منایا جاتا تھا۔ بھیم امبیڈکر نے 14 اکتوبر 1956ء کو ہندو دھرم چھوڑ کر بدھ مت اختیار کیا تھا اور 6 دسمبر کو وفات پائی تھی۔

مسجد کی مسماری کے لیے اسی تاریخ کا انتخاب کرنا حکمت عملی کا حصہ تھا جس کے تحت ہندوتوا تحریک کو صدیوں پرانی ذات کی پریشان کُن کشمکش سے عوام کی توجہ ہٹانے میں مدد ملی اور اس کے بجائے لوگوں نے اپنی توجہ ہندو بامقابلہ مسلم مسئلے پر مرکوز کر دی جس سے سیاستدانوں کے انتخابی فوائد مقصود تھے۔

یہ تقسیم 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد برطانوی حکام کے ہاتھوں پروان چڑھی اور 1947ء میں تقسیمِ ہند کا باعث بنی۔ آزادی کو 70 سے زائد سال گزر جانے کے باوجود یہ تقسیم اب بھی بھارت اور پاکستان کے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے لیے ایک نظریاتی قالب کے طور پر کام کرتی ہے۔

مثال کے طور پر حال ہی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اسی ہندو مسلم تقسیم کا استعمال کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ پاکستان کا قیام کیوں عمل میں آیا اور اس ملک کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خون کے ہر قطرے تک اس کا دفاع کریں گے۔

اب یہ الگ بات ہے کہ آج پاکستان کو صرف اپنے ایک بڑے ہندو ہمسایے سے خطرے کا سامنا نہیں بلکہ ایک مسلم ریاست بھی پاکستان کے لیے پریشانیوں کا باعث بن رہی ہے۔

خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس ہندو-مسلم تقسیم کو باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ کثیرالثقافتی اور کثیرالمذاہب ریاست، بھارت کو واحد ہندو اکثریتی قوم یعنی ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کے اپنے مقصد کو آگے بڑھا سکیں۔ وہ یہ سب سڑکوں پر عوامی طاقت، میڈیا پر کنٹرول اور سرکاری معاملات میں ہیرا پھیری کرکے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تقسیم پیدا کرنے کی کوششوں کا ادراک کیے بغیر، بھارت اور پاکستان دونوں میں بسنے والے بہت سے لبرل مفکرین بھی ہندو-مسلم تقسیم کو قبول کرتے ہیں۔ وہ ایسا مثبت وجوہات کی بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ماضی میں ہندو اور مسلمان پُرامن طور پر ایک ساتھ رہ چکے ہیں تاکہ ان کے خیال کو تقویت ملے۔

لبرل سوچ رکھنے والوں کی ’گنگا-جمنا تہذیب‘ کی مسلسل تائید بھی اسی عقیدے سے جڑی ہے اور وہ درست کہتے ہیں کہ کبھی ہندو اور مسلمان مل کر ایک دلکش ثقافتی امتزاج تشکیل دیتے تھے۔

لیکن اگر ہم مزید باریک بینی سے دیکھیں تو یہ خیال ہمیشہ سے کسی حد تک اشرافیہ کا تھا۔ یہ استحارنامہ میں پائی جانے والی سوچ پر مبنی تھا جوکہ ایک سرکاری اعلان ہے جسے اودھ کی آخری ملکہ بیگم حضرت محل نے اس وقت شائع کیا تھا جب وہ 1857ء میں انگریزوں سے مقابلہ کر رہی تھیں۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں سے غیر ملکی دشمن کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی۔ یہ پیغام گنگا-جمنا تصور کا ابتدائی ورژن تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے سخت سماجی درجہ بندی کو بھی تقویت دی۔

1958ء میں انہوں نے لکھا تھا، ’ہر شخص (میرے ماتحت علاقوں میں) اپنے اپنے دھرم پر عمل پیرا ہے اور اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق عزت پاتا ہے۔ اعلیٰ نسب کے مرد خواہ وہ مسلمانوں میں سید، شیخ، مغل یا پٹھان ہوں یا ہندوؤں میں برہمن، کھتری، ویش یا کایتھ، سب کو ان کے رتبے کے مطابق وقار حاصل ہے‘۔

لیکن اسی سرکاری دستاویز میں بیگم حضرت محل نے اُن ہندوستانیوں کے بارے میں بھی ایک نکتہ واضح کیا جو اودھ کی عنایتوں کے اہل نہیں سمجھے جاتے تھے۔ ’اور نچلی ذات کے تمام لوگ جیسے جمعدار، چمار، دھانک یا پاسی، وہ ان کے برابر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے‘۔

لیکن یہ افسوسناک سوچ یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ’اعلیٰ نسب کے ہر شخص کی عزت اور وقار کو (انگریز) نچلے طبقوں کی عزت اور وقار کے برابر سمجھتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ وہ نچلے طبقے کے مقابلے میں اونچے طبقے سے تحقیر اور بے ادبی سے پیش آتے ہیں۔

‘انگریز معزز لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں اور چمار کے اشارے پر کسی نواب یا راجا کی حاضری لازمی کر دیتے ہیں اور انہیں تذلیل کا نشانہ بناتے ہیں’۔

ہندو-مسلم ثقافتی امتزاج کی علامت سمجھی جانے والی دلکش ’گنگا-جمنا تہذیب‘ نے خود کو اس طرح محدود کر لیا کہ اس کی اپیل دونوں بڑی مذہبی برادریوں کے صرف اشرافیہ تک ہی رہی۔ نچلے درجے کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس دائرے سے واضح طور پر خارج کرنا اس سیکولر اپیل کی کمزوری ثابت ہوا۔

زیادہ قریب سے دیکھیں تو ذات پات کی تقسیم اب بھی غیرمنصفانہ نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ’مسلم دلت‘ (جیسے مہتر یا حلال خور) کو مثبت کارروائی کے وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جو ایک ’ہندو دلت‘ کو حاصل ہوتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ مظلوم گروہوں میں تقسیم پیدا کرتا ہے جس سے ان کا استحصال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

نومبر میں بہار میں ایک بڑی انتخابی فتح کے بعد نریندر مودی پچھلے ہفتے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ہمراہ ایودھیا واپس آئے جہاں انہوں نے رام مندر کے اوپر روایتی سنہری جھنڈا لہرا کر تاجروں، فلمی ستاروں اور کرکٹرز کی موجودگی میں داد وصول کی۔

وزیرِ اعظم نے عجلت میں جنوری 2024ء میں رام مندر کا افتتاح کیا تھا تاکہ مئی کے انتخابات سے پہلے سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے  لیکن ان کی پارٹی انتخاب ہار گئی لیکن پھر بھی اتحادی شراکت داروں کی مرہونِ منت وہ اقتدار میں برقرار رہے۔

زخم پر نمک چھڑکنے والی بات کروں تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوار کو بھگوان رام کے ایودھیا میں ایک دلت مخالف نے شکست دی تھی۔ یوں ہندو راشٹر کے سفر نے اتنا ہی مشکل اور غیر یقینی منظر پیش کرنا شروع کر دیا جتنا کہ ناممکن لگنے لگا۔ اپنے حامیوں اور اپنے وفادار کارکنان کے حوصلے برقرار رکھنے کے لیے مودی کو دعاؤں اور تقریروں کا سہارا لینا پڑا۔

تاہم گزشتہ ہفتے گوا میں انہوں نے کہا کہ ان کی قیادت میں بھارت ایک ثقافتی احیا کا تجربہ کر رہا ہے۔ وہ خود کو عظیم تاریخی شخصیات جیسے لورینزو ڈی میڈیکی، مائیکل اینجیلو اور کوپرنیکس کے مجموعہ کے طور پر دیکھتے ہیں تاہم یہ دعویٰ ریاستی سرپرستی میں بھارت کی ثقافتی آمیزش اور سائنسی بنیادوں پر پھیلے ہوئے ماحول کو دبانے اور جان بوجھ کر غیر فکری اور سیاسی طور پر سازگار اکثریتی نظام کو قائم کرنے کی کوشش سے اُلجھا ہوا تھا۔

یہاں ایک اور چیز کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور وہ ہے ہندوستان کے ثقافتی احیا کے حقیقی، متاثر کن لمحات۔۔۔ مثال کے طور پر، 19ویں صدی میں بنگال کی نشاۃ ثانیہ نے بہت سے فرسودہ نظریات اور طرز عمل کو چیلنج کیا جن میں سے کچھ کی اب بی جے پی، جواہرلال نہرو کے لبرل وژن کو کمزور کرنے کے لیے حمایت کرتی نظر آتی ہے۔

19ویں صدی کی اس تحریک نے ادب، سائنس اور تعلیم میں بڑی ترقی کی۔ رابندر ناتھ ٹیگور اور روکیہ سخاوت حسین جیسی اہم شخصیات نے اس وقت کی فکری اور سماجی زندگی دونوں کی تشکیل میں مدد کی۔ کیرالہ کی بھی اپنی نشانِ ثانیہ تھی جبکہ ہندوستان کے دیگر خطوں میں بھی یہی تھا لیکن ہندوستان اس وقت ایک قوم، ایک ریاست نہیں تھا۔ سماجی اصلاحاتی تحریکوں میں ایک مشترکہ موضوع عقلیت پسندی تھا جس میں بت پرستی سے کنارہ کشی بھی شامل تھی۔

اور اِدھر مودی گویا بھارت کی نئی نشاط ثانیہ کا اعلان کرنے کے لیے گوا میں رام کے 77 فٹ بلند مجسمے کا افتتاح کر رہے تھے۔ مگر جب بُت تراشی کو ویدوں کی تائید ہی حاصل نہیں، تو آخر ایسی مورتیاں کسی نشاط ثانیہ کی علامت کیسے بن سکتی ہیں؟ خصوصاً جب مجسمہ سازی کی روایت چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندرِ اعظم کے ساتھ اس خطّے میں پہنچی؟

ابتدائی ویدک دور میں بُت پرستی کا کوئی رواج نہیں تھا، اُس زمانے میں عبادت فطری قوتوں کی شخصی صورتوں کو وقف رسوم اور بھجنوں کے ذریعے کی جاتی تھی۔ بُتوں اور مندروں کا تصور تو موریہ عہد کے بعد کے زمانوں میں عام ہوا۔ لیکن مودی اور ہندوتوا کے نزدیک یہ بات اہم نہیں ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025