اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں نیا تصادم: ’انہیں جلد یا بدیر مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہے‘
اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان ایک نیا تصادم ابھر رہا ہے۔ یہ بات گزشتہ ہفتے راولپنڈی میں ہونے والی پریس کانفرنس سے واضح تھی جو عمران خان کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ سے کیے گئے ٹوئٹس کے بعد کی گئی تھی۔
پریس کانفرنس اور بعدازاں حکمران جماعت کے سیاست دانوں کی جانب سے ملنے والی حمایت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان کے لیے آنے والے حالات مشکل ہوں گے۔
درحقیقت بہت سے لوگوں کے نزدیک گزشتہ چند دنوں کے دوران ہونے والی الفاظ کی جنگ عمران خان کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ طرح طرح کی انتباہات دیے جا رہے ہیں کہ ان تک رسائی مزید محدود کر دی جائے گی اور ملاقاتوں کا سلسلہ بالکل روک دیا جائے گا۔ پہلے بھی ان کی جلد رہائی کی کسی نے توقع نہیں کی تھی اور اب تو یہ بات گویا پختہ ہو چکی ہے۔
جو لوگ اتنے پُراعتماد ہیں کہ مستقبل کی پیش گوئی کرسکیں، وہ عمران خان کے خلاف 9 مئی کے مقدمے کی کارروائی، فوجی عدالتوں اور سخت سزاؤں کی بھی بات کر رہے ہیں مگر مجھ جیسے ایک عام صحافی کے لیے غیب دان بننا آسان نہیں۔ تو چلیے انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اگر عمران خان مزید مقدمات اور مزید سزاؤں کے جال میں الجھ جاتے ہیں تو آگے کیا ہوگا۔
تاہم اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی دونوں کے لیے اصل چیلنج خیبر پختونخوا ہے۔ دونوں ’فریق‘ (اگر انہیں اس طرح بیان کیا جا سکے) پہلے ہی پی ٹی آئی کے نئے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے جس کے باعث گورنر راج کی بازگشت ہورہی تھی۔ اور گزشتہ چند دنوں میں یہ باتیں مزید زور پکڑتی گئی ہیں۔
لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا اسے اُن لوگوں کی جانب سے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو اس اقدام کی اجازت دینے والی قانونی اور آئینی شقوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں پارٹی حکومت کر رہی ہے جہاں اسے مضبوط عوامی مینڈیٹ حاصل ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب دہشت گردی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہی ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ ریاست کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج رہا ہے جبکہ یہ اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ نہ صرف اس عدم تحفظ پیدا کرتا ہے بلکہ اس نے صوبے کے عوامی مزاج پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔
بدقسمتی سے، بار بار یہ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی کی فوجی کارروائیوں اور موجودہ شدت پسندی میں اضافے نے صوبے کے عوام اور ریاست کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دی ہے۔ اور اسی کے ساتھ عوام کی اکثریت خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشنز کی خواہش مند نہیں ہے جوکہ وہی مؤقف ہے جو پی ٹی آئی بھی اختیار کرتی ہے۔
اس پس منظر میں گورنر راج کا نفاذ ریاست کے لیے معاملات کو آسان بنانے کے بجائے مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
یقینی طور پر صوبے کی حکمران جماعت کو اقتدار سے باہر نکال دینا، اس کی حمایت کو مزید مضبوط کرے گا جبکہ پہلے سے ناراض عوام کو مزید بیگانگی کے احساس میں دھکیل دے گا۔ ناراض عوام والا پہلو دہشت گردی پر قابو پانے میں ہرگز مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ اور یہ تو اس اقدام کے زیادہ واضح منفی پہلو ہیں۔
خیبر پختونخوا کے معاملے میں جس بات کا کم ذکر ہوتا ہے وہ سیاسی متبادل کی کمی ہے کیونکہ ایسے سیاسی عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں جو کم از کم کسی حد تک بھی عوامی حمایت فراہم کر سکیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جمعیت علمائے اسلام-ف (جے یو آئی-ف) جیسی جماعتیں زیادہ مقبول نہیں ہیں جبکہ اب محسوس ہوتا ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جیسی مرکزی دھارے سے باہر کی تنظیمیں بھی اپنا ربط کھو چکی ہیں۔
لیکن معاملات صرف یہی نہیں۔ خیبر پختونخوا میں نگران سیٹ اپ جو پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی حکومت اور اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد قائم ہوا تھا، زیادہ بہتر طور پر حکومتی امور نہیں چلا سکا تھا۔ محض الزامات نہیں تھے بلکہ بدعنوانی کے متعدد دعوے سامنے آئے اور انگلیاں اُن سیاسی جماعتوں کی جانب بھی اٹھیں جو اُس وقت کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت کا حصہ تھیں اور براہِ راست یا بالواسطہ طور پر خیبر پختونخوا کے سیٹ اپ میں شامل تھیں۔
اگر پی ٹی آئی کو اقتدار سے بےدخل کردیا جاتا ہے تو کیا اسے دوبارہ خیبرپختونخوا کو چلانے کا موقع دیا جائے گا؟ گورنر راج لگانے سے یہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ سیاسی طور پر اور کون سے آپشن باقی رہ جاتے ہیں اور اس کا عوامی تاثرات پر کیا اثر پڑے گا۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ریاست وہ واحد فریق ہے جسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی بھی الجھن کا شکار ہے۔ خیبرپختونخوا میں اپنی صوبائی حکومت کے ساتھ اسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر معاملات طے کرنا ہوں گے پھر چاہے وہ صوبے چلانے کی خاطر ہوں یا عمران خان تک رسائی کے لیے۔۔۔
2024 کے انتخابات کے تقریباً دو سال گزر جانے کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنے ووٹ بینک کو سڑکوں پر اس طرح متحرک نہیں کر سکی کہ عمران خان کو رہائی دلوائی جا سکے۔ اور قانونی و عدالتی نظام بھی اب اسے کوئی قابلِ عمل راستہ فراہم نہیں کرتے۔
لہٰذا چاہے پی ٹی آئی ٹاک شوز میں سخت سے سخت مؤقف اختیار کرے یا خیبر پختونخوا میں اپنے جلسوں میں گرم جوشی دکھائے، اس کے پاس کرنے کو زیادہ آپشنز نہیں ہے۔ اور اگر وہ خیبر پختونخوا میں حکمرانی کی صورت حال بہتر نہ بنا سکی تو اس کے حامیوں کی ناراضی جو پہلے علی امین گنڈاپور کے لیے تھی، نئے وزیرِ اعلیٰ کو بھی نہیں بخشے گی۔ اور اس سب کے لیے، اسے اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کے ساتھ کام کرنا سیکھنا پڑے گا۔
دوسرے الفاظ میں جلد یا بدیر پی ٹی آئی کو یہ احساس ہو جائے گا کہ اسے مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہے پھر چاہے وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کرے یا دیگر فریقین کے ساتھ۔
بدقسمتی سے یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ دونوں جانب کے مزاج کے باعث بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانا دشوار ہے۔ کسی غیرمتوقع واقعے کے بغیر جو موجودہ حالات کو یکسر تبدیل کردے، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ فریقین بیٹھ کر بات چیت بھلا کیوں کریں گے۔
اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی خاموش رہے اور تعاون کرے جبکہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے اور اس کا مینڈیٹ اسے واپس کیا جائے۔ اس صورت میں درمیانی راستہ کیا ہو سکتا ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی شمولیت کا احساس دے؟
کچھ لوگ تجویز دیتے ہیں کہ ایک سال بعد انتخابات کے لیے کوئی معاہدہ کیا جا سکتا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ بات کیوں قابلِ قبول ہوگی؟ اور یہ کیا ضمانت دی جا سکتی ہے کہ یہ نسبتاً منصفانہ انتخابات ہوں گے؟ یہ کون یقینی بنا سکتا ہے اور کیوں؟
لیکن بات الگ سمت اختیار کررہی ہے۔ فی الحال اصل چیلنج پی ٹی آئی کی قیادت والے خیبر پختونخوا اور وفاق کے درمیان تصادم ہے۔ گورنر راج آسان حل نہیں ہے اور پی ٹی آئی اس سے بخوبی واقف ہے جبکہ وفاق کو بھی اس کا ادراک ہے۔ امکانات یہی ہیں کہ لفظی جنگ جاری رہے گی کیونکہ کوئی فوری حل نظر نہیں آتا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔











لائیو ٹی وی