پاکستان کا 'سادہ' چیمپئن
فیصل آباد: ابھرتے سپورٹس سٹارز عموماً دعوی کرتے ہیں کہ کامیابیاں انہیں بدل نہیں سکیں، لیکن پاکستان کے واحد موجودہ عالمی چیمیئن محمد آصف کے معاملے میں یہ دعوی درست لگتا ہے۔
پچھلے سال امیچور ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ جیتنے والے اکتیس سالہ آصف کا وطن واپسی پر شاندار عوامی استقبال کے علاوہ سیاست دانوں اور میڈیا نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
آصف آج بھی فیصل آباد میں اپنے پرانے مکان میں رہتے اور اسی چھوٹے اور غیر معیاری سنوکر کلب میں پریکٹس کرتے ہیں۔
آصف کا کہنا ہے کہ انہیں ورلڈ کپ جیتنے پر اب تک حکومتی وعدے کے مطابق ایک کروڑ کا انعام نہیں ملا لیکن اس کامیابی نے انہیں اپنے آبائی شہر کا ایک سپر سٹار بنا دیا ہے۔
'خدا کا شکر ہے کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں ، لوگوں سے خصوصی محبت ملتی ہے، سبھی لوگ میری پرواہ کرتے اور دعائیں مانگتے ہیں'۔
'اب پورا شہر مجھے جانتا ہے، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے'۔
آصف کی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی ان کی سواری میں آئی ہے۔ اب وہ اپنی پرانی موٹر سائیکل کے بجائے چمکتی سیاہ ٹویوٹا کرولا میں گھومتے ہیں جو انہیں پاکستان کے امیر ترین کاروباری شخصیت ملک ریاض نے تحفے میں دی تھی۔
آصف سنوکر کا عالمی ٹائٹل جیتنے والے دوسرے پاکستانی ہیں۔ بیس سال پہلے یہ اعزاز محمد یوسف نے اپنے نام کیا تھا۔
لیکن آصف کی پچھلے سال ورلڈ چیمپئن شپ کھیلنے کی مہم ابتدا میں ہی دم تورٹی نظر آئی جب پاکستان بلیئرڈز اینڈ سنوکر فیڈریشن (پی بی ایس ایف) فنڈز کی قلت کی وجہ سے کھلاڑیوں کو بلغاریہ بھیجنے سے قاصر نظر آیا۔
تاہم ذاتی طور پر ملنے والے عطیات کی بدولت آصف آخری لمحات میں روانہ ہو سکے۔
بعد میں شرمیلے اور دھیما بولنے والے آصف فائنل میں برطانیہ کے گیری ولسن کو 8-10 شکست دے کر احسانات کا بدلہ چکانے میں کامیاب رہے۔
ستائیس نومبر سے لیٹویا میں شروع ہونے والے ٹورنامنٹ سے پہلے آصف بہت پرجوش ہیں۔' میں اپنے ٹائٹل کے دفاع کے لیے تیار ہوں ، اور مجھے امید ہے کہ میں اسے دوبارہ حاصل کر لوں گا'۔
خیال رہے کہ آصف نے پچھلے مہینے آئر لینڈ میں ورلڈ ٹیم چیمپئن شپ میں پاکستان کو جتانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
آصف کا کہنا ہے کہ اس ایونٹ سے حاصل ہونے والے تجربہ نے ان کے ذہن کو مزید مضبوط کیا ۔
'حالیہ کامیابیوں سے میرے حوصلے بلند ہوئے اور کھیل میں بھی پختگی آئی۔ میں نے کھیل کے دوران دباؤ جھیلنے کا فن سیکھ لیا ہے، جو سنوکر کا سب سے اہم حصہ ہے'۔
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو آصف اگلے سال پروفیشنل بننے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور یہ سب ایک کاروباری شخصیت ندیم عمر کی جانب سے بیس ہزار ڈالرز کی سپانسر شپ کی بدولت ہی ممکن ہوا۔
پروفشنل بننے کے بعد آصف کی نظریں اپنے حریف رونی او سولیون پر مرکوز ہوں گی، جنہوں نے 2012 میں ملنے والے ورلڈ کراؤن کا اس مئی میں کامیاب دفاع کیا ہے۔
نچلی سطح پر سنوکر کو پاکستان بھر میں مقبولیت حاصل ہے لیکن کرکٹ کے اس شیدائی ملک میں سنوکر کو سپانسر شپ اور کوریج کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کے سٹار کھلاڑی فیس اور سپانسر شپ کی وجہ سے خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن سنوکر میں ایسا نہیں۔
تاہم آصف کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کہتے ہیں: سنوکر بہترین کھیل ہے اور تکنیکی لحاظ سے اس میں بہت تفریح ہے۔
'اس میں آپ کو خود ہی اپنے حریف کو ہرانا ہوتا ہے جبکہ کرکٹ میں جیت کا دارومدار ساتھی کھلاڑیوں کی کارکردگی پربھی ہوتا ہے'۔
آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنوکر کی تاریخ بہت منفرد رہی ہے۔ 'ہمارے قائد اعظم بھی یہی کھیل کھیلتے تھے'۔