السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

[soundcloud url="https://api.soundcloud.com/tracks/117125254" width="100%" height="166" iframe="true" /]

عصمت چغتائی کے ناول 'ٹیڑھی لکیر' کے ابتدائی صفحات میں ناول کی منہہ زور اور باغی ہیروئن شمع کو پڑھائی سے پہلی بار متعارف ہوتے دکھایا  گیا ہے- یہ کوئی خوش کن ملاقات نہیں تھی، کتاب جس کے صفحے شمع کی بڑی بہن نے سلائی کر کے جوڑے تھے، اس کے نزدیک ایک بیکار شے تھی جس کے الف ج سمجھانے کے لئے بے معنی شکلیں اس کے اندر مزید جھنجھلاہٹ پیدا کر رہی تھیں-

اپنی بہن کے کمرے سے باہر جانے کے بعد غصّے سے بھری شمع نے کتاب کا معائینہ کیا، ناول کے انگریزی ترجمے میں وہ منظر کچھ اس طرح پیش کیا گیا ہے، 'اس کے دانت ایک بار پھر کٹکٹانے لگے، اس نے سلائی کے آخر سرے  پر موجود دھاگے کو کھینچا اور کسی زخم پر لگے ٹانکوں کی طرح، سلائی کے دوسرے سرے تک وہ بخیے ادھڑتے چلے گۓ- اسے بہتر محسوس ہونے لگا، ایسا لگتا تھا جیسے اس نے ایک ہی جست میں تمام سیڑھیاں پار کر لیں- جلد ہی کتاب کے صفحات چاروں طرف بکھر گۓ-

چوبیس اکتوبر سنہ دو ہزار تیرہ کو عصمت چغتائی کے انتقال کو 21 سال ہوگئے، لیکن آج  بھی 'ٹیڑھی لکیر' اور اس جیسی بہت سی کتابوں میں، ان کی عورت ذات کے حقیقی دائرہ اثر کی کھوج  اتنی ہی متجسس اور مناسب ہے جتنی پہلی بار لکھے جانے پر تھی- ان میں نجات کے لئے کوئی واضح ہدایت نامہ نہیں ہے نا ہی تعلیم یافتہ روشن خیالی کے لئے راہ ہموار کی گئی ہے بلکہ وہ سوالات اور پیچیدگیاں ہیں جنہیں  آزادی کے علم برداروں نے نظر انداز کر کے  آزادی کو ایک جدوجہد کے بجاۓ فقط نعروں تک ہی رکھا-

عصمت چغتائی کی آپ بیتی کے طور پر پڑھے جانے والے ناول، 'ٹیڑھی لکیر' میں قارئین کو پردے کے پیچھے رہنے والی ہندوستانی مسلمان عورتوں کی دنیا سے متعارف کرایا گیا ہے- ان کی حالت کی بے کیفی اور سستی ہر جگہ اور ہر کسی میں نظر آتی ہے- بے فکر اماں سے لے کر --شمع جن کی آخری اولاد تھی اور اس کی پرورش کی ذمہ داری انہوں نے بڑی بہن پر ڈال دی--، جوانی میں ہی بیوہ ہو جانے والی بڑی آپا تک، جو اپنے لئے ہمدردی کو بڑی چالاکی کے ساتھ خاندانی ذمہ داریوں کی مارکیٹ کرنسی کے طور پر استعمال کرتی تھیں-

ان عورتوں کو اپنے مردوں پر ایک بلا واسطہ کنٹرول حاصل ہے- ایسا ہی ایک مشاہدہ شمع کو اپنی کزن کی شادی میں ہوا- وہ کہتی ہے 'لیکن جب دولہا نوری کو لے کر جانے لگا تو شمع کو اپنے  دل کے کسی کونے میں یہ محسوس ہوا کہ نوری فروخت نہیں ہوئی بلکہ وہ شخص جو اسے اپنے سینے سے لگاۓ جا رہا ہے اس نے اپنے وجود کو زنجیروں میں جکڑ لیا ہے- یہی نوری، یہی نوجوان تجربہ کار لڑکی، اس طرح اس کے وجود میں اپنے پنجے گاڑ دے گی کہ یہ پوری دنیا کو ٹھوکر مار کر اپنی لگام اس کے ہاتھوں میں دے دیگا اور نوری جس راستے پر چاہے گی اسے چلاۓ گی-

کتنے افسوس کی بات ہے، کہ مرد عورت کو اپنے پاؤں کی جوتی، ناقص العقل  اور خدا جانے کیا کیا سمجھتے ہیں- لیکن جب یہی جوتی ان کے سر پر پڑتی ہے تو انکی انا پاش پاش ہو جاتی ہے-

جیسے جیسے شمع بڑی ہوتی ہے، پردے کی دنیا غائب ہوتی چلی جاتی ہے، ایک ایسی ہیرا پھیری کی دنیا جہاں عورتوں کی زندگی کا معیار اس بات پر مقرر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مردوں پر کتنا کنٹرول رکھتی ہیں- اور اسی بیچ، جدید خیالات کی دنیا ہے، وہ دنیا جہاں مرد اور عورت میں فرق نہیں، جہاں تعلیم ہے اور ترقیاتی سیاست، لیکن یہ دنیا وہ جذباتی اور دانشوارانہ تکمیل فراہم نہیں کرتی جس کی توقع کی جاتی ہے- اگر ایسا کچھ ہے بھی، تو اس کے اصول غیر واضح ہیں اور بہت کم ایسے ہیں جنہیں انکی جانکاری ہے-

بالغ شمع، چند تعلیم یافتہ نوجوان مسلمان عورتوں میں سے ایک، خود کو اپنےخاندان سے دور ہوتا محسوس کرتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ جدیدیت کی چکاچوند کو بھی تسلیم نہیں کر پاتی- اس کی سہیلیوں میں ہمیں بدلتی دنیا کے نقصانات نظر آتے ہیں- اس کی کالج کی دوست عاملہ، جو بنا شادی کے حاملہ ہے، نہ اپنے بچے سے مکمل طور پر پیار  کر سکتی ہے اور نا ہی اسقاط حمل (جو اس کے نزدیک اس مسئلہ کا واحد حل ہے)- بلقیس، میں ہم ایک قاتل حسینہ دیکھتے ہیں، جس کے چاروں طرف مرد موجود ہیں لیکن وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ آیا وہ ہم آہنگی کو ترجیح دے، محبّت اور کشش کو یا دولت کو-

دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جاۓ کہ پردے میں رہنے والی عورتوں کے پاس اگر انتخاب کی کمی یا فقدان ہے تو دوسری دنیا میں رہنے والی عورتوں کو یہ علم نہیں کہ صحیح انتخاب کیسے کیا جاۓ-

شمع جس اسکول میں بطور ہیڈ مسٹریس ملازمت کرتی ہے وہاں کی استانیاں بھی  اسی کشمکش میں پھنسی ہوئی عورتیں ہیں، چنانچہ وہ اپنی بری ساسوں، شوہروں کی بے توجہی، اور بے جا مداخلت کرنے والی نندوں کی برائیاں کرتی نظر آتی ہیں-

رشتے ناتوں کے خدشات سے بھرا اور ساتھ ہی لڑکیوں کی تعلیم جیسے عظیم مقصد کے لئے استعمال ہونے والا سٹاف روم اس کے بچپن کا آنگن بن گیا جہاں عورتیں اپنا پردہ بھی برقرار رکھتی تھیں ساتھ ہی انہی موضوعات کی چیر پھاڑ میں بھی مصروف رہتی تھیں- مایوس شمع نے ایسے نظام تعلیم کو برقرار رکھنے پر با آواز بلند تعجب کا اظہار کیا؛

"اسے گھر چلے جانا چاہیے اور شادی کر کے مفلس اور مجبور انسانوں کی تعداد میں مزید اضافہ کرنا چاہیے کہ یہی اسکی قومی وراثت ہے"، اسکی  خود کلامی بیچ ہی میں رک جاتی ہے، لیکن شبہات کی شکار شمع کہیں نہیں جاتی-

تو اس طرح، چغتائی کی تحریک نسواں، روایتی نہیں بلکہ اس میں پریشان کرنے اور تکرار کرنے کی صلاحیت ہے- شمع کی جنسیت کی ہنگامہ خیز جہتیں قاری کو انکی طاقت تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں- صنف نازک مضبوط اور با ارادہ تو نظر آتی ہیں، لیکن اس روایتی معیار کے تحت نہیں جہاں اسے علیٰ تعلیم یافتہ اور نتیجتاً پوری طرح تکمیل شدہ ہونا چاہیے  بلکہ وہ  اپنے ہی تیار کردہ گرداب اور تضاد کا نمونہ نظر آتی ہے- عورتیں مرکزی کردار ہیں کیوں کہ یہ انکی سوچ، ان کے سوالات، ان کے ناخوشگوار حالات ہیں جو اس کہانی کا سبب بنے-

شمع کی ابتدائی زندگی میں آنے والی عورتوں اور رومانس اور جذبات کی جنگ نے اس کی زندگی میں یہ سوال کھڑا کر دیا کہ آیا مرد  اور عورت الگ تھلگ تناظر میں ایک دوسرے سے محبت کر سکتے ہیں؟

آخر کو یہ جذباتی بندھن ہوتا ہی موافقت کی بنیاد پر ہے، تو اگر یہ دونوں ہی مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں تو پھر تو یہ تعلق ناممکن ہو جاتا ہے-

عصمت چغتائی کی ادبی کاوشیں ان ابہام کو پیش کرتی ہیں ---جو دھڑکتے ہیں، جوشیلے ہیں اور ذاتی ہیں--- یہ وہ آواز ہے جو قاری کے اپنے اندر موجود ہے- انکی کہانیوں کا المناک انجام،  قوم پرستی کے لحاظ سے عصر حاضر کا جائزہ پیش کرتا ہے، چاہے آپ اسے ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں یا پاکستان کے-

ان کہانیوں کی ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ان کے کرداروں کی مشکلات  میں پیش کے گۓ ابہام آج بھی  قیمتی ہیں اور حقیقت رکھتے ہیں، لیکن پاکستانی کہانیوں میں ان کا فقدان ہے- پاکستانی مڈل کلاس لڑکیاں، اوسٹن، ڈکنز اور بلائیٹن اور ان جیسے دیگر ادھر ادھر کی باتیں کرنے والے مصنفوں کی کہانیوں تو ہضم کر لیتی ہیں لیکن اس لٹریچر کو بڑے پیمانے پر مسترد کر دیتی ہیں جو نسوانی تنازعات کا عکس، ادھار کی ترقی پسندی کی مفلسی اور خود کو تباہ کر دینے والی انتہا پسندی کو پیش کرتے ہیں-

چغتائی کی پیدائش کے تقریباً سو سال بعد، سنہ دو ہزار تیرہ میں انکی تحریریں پڑھ کر ایسی بصیرت کے نقصان کا افسوس ہوتا ہے، جو اب بھی موجود ہے لیکن یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے-


ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Oct 26, 2013 07:05pm
کم از کم عصمت چغتائی پر مضمون تو کوئی اردو میں لکھ دیتا. یہ ہم تک بے تکے ترجمے کی شکل میں تو نہ ملتا.وہ اردو کی مصنف تھیں لیکن لگتا ہے کہ ان کے پڑھنے والوں کواردو نہیں آتی اس لیے وہ اپنے مضمون کے ترجمے پر گزارا کر رہے ہیں. ڈان اردو کو چاہیے کہ وہ صرف اردو میں لکھی گئی اصلی تحریریں ہی چھاپے، ترجمے صرف ان انگریزی تحریروں کے ہونے چاہیے ہیں جو غیر ممالک میںلکھی گئی ہوں.
عثمان Oct 29, 2013 07:21am
پاکستان میں اردو صحافت اس قدر بیہودہ ہے کہ عقل پر مبنی کوئی بھی بات انگریزی صحافت سے مستعار لینا پڑتی ہے۔