چترال کی لڑکیوں میں خودکشی کا رحجان کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
چترال کی لڑکیوں میں خودکشی کا رحجان کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

اپرچترال کے ایک گاؤں پروک کی دو لڑکیاں اپنے میٹرک امتحانات کی مارک شیٹس لے کر اسکول سے نکلیں لیکن وہ اپنے گھر نہ پہنچیں۔

وہ اتنی خوفزدہ تھیں کہ امتحانات میں ان کی ناکامی نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ ایک نہر میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیں اور انہوں نے قریبی دریا میں ڈوب کر جان دیدی۔

چترال شہر کی وادی جغور سے تعلق رکھنے والی ایک اور لڑکی نے اس وقت خود کو دریا کے بے رحم پانیوں کے حوالے کردیا کیونکہ اس کے والدین اس کی شادی کہیں اور کرنا چاہتے تھے۔ دوسری جانب ایک اور مقامی لڑکی نے اس واقعے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا جب اس کے بھائی نے اسے اپنی بیوی سے جھگڑنے پر ڈانٹا۔

یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہیں جو گزشتہ برس چترال میں رونما ہوئے ہیں۔ خودکشی کرنے والی لڑکیوں میں سے اکثر کم سن اور غیر شادی شدہ ہیں۔

ایک مقامی سول سوسائٹی تنظیم نے ایک سروے کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے مقامی خواتین کی خودکشی کے واقعات کی تعداد ہر سال پچاس سے ذیادہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہرماہ چار خودکشیاں اور ہر ہفتے ایک خاتون زندگی کا خاتمہ کرلے گی۔

ان میں غیر شادی شدہ اور نو عمر لڑکیوں کی شرح 68 فیصد ہے۔ اور یہ ایک پریشان کن رحجان اور معاشرے کے لئے ایک چیلنج بھی جس پر فوری غور کی ضرورت ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان خواتین میں سے نوے فیصد نے نہر یا دریا میں چھلانگ لگاکر خودکشی کی ہے۔

کمسن لڑکیوں میں خودکشی کی چند وجوہ میں زبردستی شادیاں، والدین کی جانب سے بیٹیوں سے جانبدارانہ رویہ، معاشرے کے بدلتے ہوئے اقدار اور سخت معاشرتی اقدار ہیں۔

اس کے علاوہ لڑکیوں کیلئے دارالامان جیسے اداروں کی کمی اور نفسیاتی کونسلنگ اور مشاورت کی سہولیات نہ ہونا ہیں۔

گورنمنٹ ہسپتال کے ڈاکٹر حمزہ کے مطابق چترال کی نوجوان نسل میں ڈپریشن کی غیر معمولی بلند شرح موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی شعور و آگہی سے خودکشی کے اس رویے اور رحجان کو کم کیا جاسکتا ہے اور اگر خودکشی کی ابتدائی علامات کی نشاندہی ہوجائے تو ان سانحات سے بچا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر حمزہ نے کہا کہ خودکشی کا عمل کئی مرتبہ یکلخت ہوتا ہے اور ایک اداس شخص سیکنڈوں میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔

ضلعے میں مناسب تعلیم اور تمام طبی مراکز پر مشاورت اور کنسلٹشن سینٹر سے اس رویے کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

چترال کے ایک سماجی (سوشل) سائنسدان ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی اسے جنریشن گیپ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ والدین اور بچے دونوں دو مختلف سروں پر موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بچوں اور والدین کے تعلقات شدید متاثر ہورہے ہیں ۔ دوسری جانب موبائل فونز  اور دیگر آلات کے غلط استعمال سے نئی نسل کو سوائے پیچیدگیوں کے کچھ اور نہیں ملا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب ایک ایک لڑکی والدین کو چیلنج کرتی ہے تو پھر اس کا رویہ ناقابلِ برداست ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہ اب سے ایک عشرے قبل یہاں خودکشیوں کی شرح بہت ہی کم تھی یعنی سال میں کوئی ایک خودکشی کا واقعہ ہوتا تھا۔

آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت خواتین کی مدد کرنے والے پروجیکٹ کے سابق مینیجر امتیاز احمد نے کہا کہ اگر خواتین کو سیاسی و معاشی طور پر مضبوط کیا جاتے تو خودکشی کے ان واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

احمد نے کہا کہ یہ غیرشادی شدہ لڑکیوں میں خود کو ختم کرنا ایک سماجی مسئلہ ہے جسے سائنسی بینادوں پر دیکھ کر اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

چترال کی ایک تنظیم ہیومن رائٹس پروگرام کے چیئرمین نیاز اے نیازی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس بات کی واضح علامات ہیں کہ خودکشیوں کے نصف سے زائد واقعات دراصل قتل اور غیرت کے قتل کے واقعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر معصوم لڑکی کو اس کے والدین اور عزیزوں نے قتل نہ بھی کیا ہو تب بھی اسے ان حالات کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے جہاں اس کے پاس خودکشی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچتا ۔

نیازی نے کہا کہ پولیس اس سلسلے میں ہمیشہ ہی حقیقت اور اصل قاتلوں تک رسائی میں کوتاہی دکھاتی ہے۔ جس میں یہ تاثر بھی شامل ہوتا ہے کہ سچائی منظرِ عام پر آنے سے ایک خاندان کی بدنامی ہوگی۔

انہوں نے دو ماہ قبل بونی گاؤں میں ایک چوبیس سالہ خاتون کا حوالہ دیا جس نے نہر میں کود کر جان دیدی تھی۔

' لیکن جب اس کی لاش برآمد کرکے اس کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نہر میں پھینکنے سے قبل اس زخم لگائے گئے تھے اور بعد میں اس کے شوہر نے اس کے قتل کا اعتراف کرلیا تھا۔

نیازی نے کہا کہ اویر گاؤں کی ایک غیر شادی شدہ لڑکی قدیر گل کو بھی دریا میں پھینکنے سے قبل قتل کردیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے اصرار پر اس کی قبر کشائی کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے سر پر ہتھوڑے کے وار کئے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں