قطر ورلڈ کپ کی تیاریاں، مزدوروں کے سنگین استحصال کا انکشاف

شائع November 18, 2013

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل سلیل شیٹھی پریس کانفرنس کے دوران قطر کے حوالے سے شائع رپورٹ دکھا رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

دوحہ: ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قطر پر زور دیا ہے کہ وہ 2022 میں قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے سلسلے میں تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں سے زیادتیاں بند کرے۔

پیر کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں ان کیسز کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں ان مزدوروں کو جانوروں سے تشبیہہ دی گئی تھی ۔

169 صفحات کی رپورٹ میں گلف ریاست پر مزدوروں کے خطرناک حد تک استحصال کا الزام عائد کرتے ہوئے فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قطر پر غیر ملکی مزدوروں کو کام کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے پر زور دے۔

لیکن دنیا بھر میں فی کس سالانہ آمدنی کے حوالے سے سرفہرست ملک قطر نے ورلڈ کپ کے تعمیراتی کام کے لیے تعینات مزدوروں سے غلامانہ انداز میں کام لیے جانے کے الزامات کی سخی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان الزامات کی تفتیش کرے گا۔

ایمنسٹی نے کہا کہ ان کے ریسرچرز نے ایک تعمیراتی کمپنی کے منیجر کو غیر ملکی مزدوروں کے لیے جانور کا لفظ استعمال کرتے ہوئے سنا جبکہ ایک مزدور نے واچ ڈاگ کو بتایا کہ نیپالی افراد سے بھیڑ بکریوں جیسا رویہ رکھا جاتا ہے۔

ایمنسٹی کے سیکریٹری جنرل سلیل شیٹی نے بتایا کہ ان تحقیقات سے قطر میں خطرناک حد تک استحصال کی نشاندہی ہوتی ہے اور یہ ان انفرادی واقعات نہیں بلکہ ایسا وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیفا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عوامی سطح پر ایک سخت پیغام بھیجے کہ ورلڈ کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں جاری تعمیراتی کام کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

واضح رہے کہ 9 نومبر کو قطر کے امیر اور وزیر اعظم سے میٹنگ کے بعد فیفا کے سربراہ سیپ بلاٹر نے کہا تھا کہ کام کرنے کے حالات کے حوالے سے مسائل کو میٹنگ میں زیر بحث لایا گیا۔

2022 میں اربوں ڈالر مالیت کے عظیم الشان ورلڈ کپ ایونٹ کے انعقاد کی ذمے داریاں ملنے کے بعد قطر عالمی سطح پر سب کی توجہ کا مرکز بنا گیا اور غیر ملکیوں کی بڑی تعداد نے تیل اور گیس کے ذخائر سے بھرپور اس ملک کا رخ کرنا شروع کر دیا لیکن عرب ملک میں غیر ملکی محنت کشوں کی حالت زار تاحال ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں متعدد زیادتیاں نقل کی گئی ہیں جس میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی، کام کرنے کے سخت و خطرناک حالات اور حیران کن معیار رہائش قابل ذکر ہیں۔

ٹیم نے اپنی تحقیقات میں بتایا ہے کہ مزدوروں انتہائی گندی جگہ پر رکھا گیا ہے جہاں بغیر ایئر کنڈیشن کے لوگوں کو ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے اور یہاں پر جابجا گٹر بہہ رہے ہیں۔

لندن کی واچ ڈاگ تنظیم نے ان تمام افراد سے جبری مشقت لیے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے درجنوں افراد قطر میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ حکومت سے ملک سے جانے کی اجازت ملنے کے منتظر ہیں۔

اس کے جواب میں قطر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ مبینہ زیادتیوں کی تحقیقات کےحوالے سے پہلے قائم انکوائری کمیٹی میں اس رپورٹ کو بھی شامل کرے گا۔

وزارت خارجہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ حکام نے عالمی قانونی کمپنی ڈی ایل اے پائپر کو ایمنسٹی کی رپورٹ کو آزاد تجزیے میں شامل کرنے ی ہدایت کی ہے جہاں اس سے قبل حکومت کی جانب سے اس حوالے سے پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

ریاست قطر متعلقہ قوانین کے پیش نظر انسانی حقوق کے تحفظ اور اس کی پاسداری کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس نے ان ھقوق کے  تحفظ اور ان کو لاگو کرنے کے لیے مختلف باڈیز کا قیام کیا ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب یہ قطر حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے قانون میں ضروری تبدیلیاں کرے اور مزدوروں کا تحفظ یقینی بنائے۔

شیٹھی نے کہا کہ ان کی ٹیم نے جمعہ کو دوحہ میں نیپالی، سری لنکن اور دیگر قومیتوں کے 70 مزدوروں کے ایک گروپ سے ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ انہیں 9-10 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے امیر ترین ملک کا غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ یہ رویہ ناقبل معافی ہے۔

اس کے علاوہ کچھ مزدوروں کی جانب سے خرابی صحت اور ناقص حفاظتی اقدامات کی شکایت بھی کی گئی ہے۔

شیٹھی نے دوحہ کے اسپتال کا نام بتائے بغیر کہا کہ 2012 میں اونچائی سے گرنے والے ایک ہزار سے زائد مزدور شعبہ حادثات میں زیر علاج رہے، ان میں سے 10 فیصد معذور جبکہ مرنے والوں کی تعداد بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔

ستمبر میں برطانوی گارجین اخبار میں رپورٹ یا گیا تھا کہ رواں سال قطر میں کام کرنے والے 44 نیپالی ہلاک ہو گئے لیکن ایمنسٹی کی جانب سے اس تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ ان میں بہت سے کنٹریٹرز کے لیے کام کرنے والے مزدور دراصل بڑی بڑی عالمی کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔

ایک اور کیس میں بتایا گیا کہ 2022 میں ہونے والے فیفا کے ورلڈ کپ پراجیکٹ کے تعمیراتی کام کے سلسلے میں مزدوروں کو سخت نوعیت کی مشقت کا سامنا ہے جہاں ان سے ہفتے میں سات دن روزانہ بارہ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے۔

ایمنسٹی کے جنرل سیکریٹری نے خبردار کیا کہ اگر دور رس نتائج کے لیے فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل قریب میں ورلڈ کپ کے لیے ہونے والی بھرتیوں میں ہزاروں مزدوروں کو سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ قطر میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر ملکی جاتے ہیں جہاں ملکی آبادی کا 88 فیصد غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 جون 2025
کارٹون : 20 جون 2025